اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ

کسی بھی معاشرے کی اکائی اس کے افراد ہوتے ہیں اور یہ افراد دو ہی جنس میں منقسم ہوتے ہیں مرد یا عورت کسی بھی معاشرے میں توازن اسی صورت باقی رہ سکتا ہے جب اس معاشرے کے ہر رکن کو اس کی حیثیت متعین ہو اور وہ اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہودین اسلام نے نہ صرف تمام ہی شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں رہنمائی فرمائی ہے بلکہ کوئی بھی مخلوق ہو پرندہو یا چرنداس کی حیثیت کو متعین کیا گیا ہے ۔تو یہ کیسے ممکن تھا کہ دین اسلام حضرت انسان کو ڈسکس نہیں کرتا اسی طرح دین اسلام میں تمام انسانوں کی حییت و درجات بھی مقرر فرمادیے ہیں۔ عورت بہت سے رشتوں سے مربوط ہے مثلا وہ ایک بیٹی،ایک بہن اورپھر وہ ایک بیوی اور ماں ہے اس کےعلاوہ وہ دوسری معاشرتی ذمہ داریاں بھی سنبھالتی ہے۔ہم عورت کا بحیثیت ماں بہن بیٹی اور بیوی کی حیثیت کا جائزہ لیں گے۔

اگر ہم عورت کا بحیثیت بیٹی اس کا مقام دیکھے تو ہم جانتے ہے کہ قرآن کریم میں اس کی پیدائش کو خوش خبری قرا دیاان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خوش خبری دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے (سور النحل آیت ۵۸) دین اسلام ہی ہیں جس نے عورت کو بیٹی کے روپ میں جینے کاحق دیا ورنہ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا نبی کریمﷺ بحیثیت باپ اپنی بیٹیوں پر بہت شفیق تھے آپﷺ کی حضرت فاطمہ سے بےپناہ عقیدت و محبت کو کون نہیں جانتا آپ نے بیٹی کے استقبال میں کھڑے ہوکرپوری امت کو بیٹی کی عزت و محبت سکھائی اگر آج بیٹیوں کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہے تو یہ حضورﷺ کی تعلیمات کا صدقہ ہے اور بیٹیوں کی پرورش کوجنت میں لے جانے کا سبب قرار دیا گیاہے ایک حدیث میں وارد ہوا ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دی، اور تیسری کھجور کے (بھی )دو ٹکڑے کر کے دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں تعجب کیوں ہے؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی(سنن ابن ماجہ : 3668 ،)۔

اس کے بعد یہی بیٹی جب بہن بنتی ہے توبھائی اس کی عزت کا محافظ ہوتا ہے اور دین اسلام نے بہنوں پر خرچ کرنے کی تر غیب دی ہےاور ان کی پرورش اور تربیت کرنے پر جنت کی بشارت سنائی ہے ایک حدیث میں وارد ہوا قبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :” جس کے پاس تین لڑکیاں (بیٹی یا بہن )ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے ، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی”(ابن ماجہ)۔نبی کریمﷺنبی کریمﷺ کے عمل سے بھی بہن کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ اپنی رضائی بہن کے لیے آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کے لیے زمین پر بچھادی اور ان کا بہت اکرام کیا۔

عورت کا بحیثیت بیوی ہونا اپنے شوہر کے ایمان کے تکمیل کا ذریعہ ہے اور دین اسلام نے عورت کو مرد کے گھر کی ملکہ بنایا اس پر کوئی بھی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی یہ کس قدرخوش نصیبی اور باعث طمانت کی بات ہے کہ عورت پردین اسلام نے معاشی بوجھ نہیں ڈالا اس کا نان نفقہ اس کے شوہر کے ذمہ ہے اور اسلام نے عورت کے ساتھ اچھا برتاؤ کا حکم دیا آپ ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں (بیویوں) کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم میں سے سب سے اچھا ہو اپنے گھر والو کے ساتھ۔اس کے بعد عورت کی زندگی میں جن رشتوں کا کردار آتا ہے وہ ہے اس کی اولاد اسلام نے جتنے بھی رشتے عطا کیے ہیں ان سب میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ماں کا رشتہ ہےاس کی اہمیت و مقام کی کوئی انتہا ہی نہیں دین اسلام میں قرآن کریم میں والدین کے لیے “اف” بولنے کو بھی جرم قرار دیا گیا اور والدین کے لیے فرمایا اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی فرمایاکی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے (الأحقاف: 15)اس کے علاوہ ایک دعا بھی تعلیم فرمائی مگر یہ خصوصیت ماں اور باپ دونوں کے لیے ہیں مگر دین اسلام نے ماں کا رتبہ باپ سے تین گناہ افضل رکھا ہوا ہے جس کا ہمیں اس حدیث سے پتہ چلتا ہے ۔ اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: (اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) بخاری (5626) ،مسلم (2548) ۔

زمانہ جاہلیت میں ایک برا رواج یہ بھی تھا کے وہ اپنےباپ کے مرنے کے بعد باپ کی بیویوں سے شادی کر لیا کرتے تھے اسلام نے آکر اس قبیح رسم کو ختم کیا یہ عورت کی توہین تھی جس کو اسلام نے آکر ختم کیا اللہ نے باپ کی بیویوں سے نکاح کوحرام قرار دے کر اس کا رتبہ بلند کیااللہ سبحان و تعالی نے عورت کو بہت نازک تخلیق فرمایا ہے اور یہ عورت اسلام میں بہت قیمتی تصور کی جاتی ہے اس کی وضا حت ایک حدیث میں ہوتی ہے ایک مرتبہ تیزی سے ایک غلام اونٹوں کو بھگا رہا تھا جس پر عورتیں سوار تھی یہ دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا اے انجشہ آہستہ یہ تو آبگینے ہیں یعنی عورتوں کے ساتھ حسن و سلوک کا برتاو کرنے اور ان کی نزاکت کو بیان کیا یہی وجہ ہے کہ خالق نے اس کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام فرمایا ہے اس کو زندگی موڑ پر محرم رشتے عطا کیے جو اس کے محافظ ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں جو انسان قیمتی ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی اہمیت ہوتی ہے وہی انسان اپنے ساتھ محافظ یعنی باڈی گارڈ رکھتاہے۔

اللہ سبحان و تعالی ٰکے نزدیک عورت کی عزت و جان کی اتنی اہمیت ہے اللہ سبحان و تعالی نے نہ صرف عورت کی حفاظت مرد کے ذمے لگائی ہے بلکہ عورت کی تمام معاشی ذمہ داری عورت کےمحارم پر ڈالی گئی ہے یہ بات اور ہے کہ عورت اس سے خود نابلد ہیں کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پراس پر کمانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اس کا اسےاجر ملے گاعورت کو وہ تمام حقوق حاصل ہے یعنی تعلیم کا حق،تجارت کا حق ،رائے دینے کا حق ،اپنی مرضی سےشادی کا حق ،جائیداد رکھنے کاحق وغیرہ شامل ہے اسی طرح عورت ہر پیشہ اختیار کرسکتی جس میں اس کے مقام و مرتبہ کو ٹھیس نہ پہنچتی ہو اگر ہم اسلام کے قرون اولیٰ میں عورتوں کے پروفیشن کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کے عورتیں تمام فیلڈ میں اپنے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے موجود ہے حضرت خنساء کو کون نہیں جانتا زمانہ جاہیتس کی مشہور شاعرہ تھی ان کا مقام یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں عکاظ کے میلے میں خنساء کے خیمے پر جو سائن بورڈ لگتا تھا اس پر ارثی العرب (عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ) لکھا ہوتا تھا ان کی شاعری کا دیوان آج بھی موجود ہے اور علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنساء کا مثل پیدا نہیں ہوا اسلام نے ان پر کوئی قدغن نہیں لگائی ام عمارہ جنگوں میں شریک ہوتی زخمیوں کی مدد بھی کرتی اور باقاعدہ مجاہدوں کے ساتھ صف آرا ہو کر دشمنوں کا جواں مردی سے مقابلہ کرتی آپ غزوہ احدمیں شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑیں، جب تک مسلمان فتحیاب تھے، وہ مشک میں پانی بھر کر لوگوں کو پلا رہی تھیں، لیکن جب شکست ہوئی تو آنحضرتﷺ کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہوگئیں، کفار جب آپ پر بڑھتے تھے تو تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔ آنحضرتﷺ کا خود بیان ہے کہ میں اُحد میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں برابر لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قمیئہ جب درّاتا ہوا آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گیاتو اُمّ عمارہ نے بڑھ کر روکا چنانچہ کندھے پر زخم آیا اور غار پڑ گیا، انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے کارگر نہ ہوئی بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے ایک کافر کو قتل کیا تھا۔

اُحد کے بعد بیعتِ الرضوان، خیبر اور فتح مکہ میں بھی شرکت کی۔ ابوبکرکے عہد میں یمامہ کی جنگ پیش آئی، مسیلمہ کذّاب مدعی نبوّت سے مقابلہ تھا۔ اُمّ عمارہ اپنے ایک لڑکے (حبیب) کو لے کر خالدکے ساتھ روانہ ہوئیں اور جب مسیلمہ نے ان کے لڑکے کو قتل کر دیا تو انہوں نے منت مانی کہ یا مسیلمہ قتل ہوگا یا وہ خود جان دے دیں گی۔ یہ کہہ کر تلوار کھینچ لی اور میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئی اور اس پامردی سے مقابلہ کیا کہ 12 زخم کھائے اور ایک ہاتھ کٹ گیا، اس جنگ میں مسیلمہ بھی مارا گیا۔شادی کے وقت عورت کو اپنا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہیں ہمارے ہاں یہ تصور موجود ہے کے شاید یہ بہت عیب کی بات ہیں کہ عورت اپنی پسند کا اظہار کریں مگر دین اسلام میں ایسا کچھ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا ، شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ کنواری کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہؓ نے پوچھا یارسول اللہﷺ! کنواری کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے۔ ؟ فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔ بلکہ ایک دفعہ حضور اکرمﷺ کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو آپﷺ نے اس کا نکاح فسخ کر دیا۔ ایک صحابی ’’حضرت خنسا بنت خدام انصاریہؓ کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کر دیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کِیا، تو آپﷺ نے میرا نکاح فسخ کر دیا۔ ‘‘نبی کریمﷺ نے اپنے لخت جگر کا جب نکاح کیا توان سے اجازت لی اور امت کواپنی بیٹیوں کی رضامندی سے شادی کرنے کا پیغام دیا۔ اسلام نے بیٹیوں کے لیے وراثت میں حصہ مقرر کیا ورنہ اسلام سے قبل وہ اس حق سے محروم تھیں ۔

ہم جس اعتبار سے بھی عورت کے مقام کاجائیزہ لیں یعنی ہم تمام ادیان میں عورت کے رتبہ کا جائزہ لیں یا ہم دیگر اقوام میں جائزہ لیں تو ہم پر یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ معاشرے میں عورت کی عزت اور حیثیت صرف اسلام کی مرہون منت ہیں ویسٹ نے عورت کو آزادی کے نام پر جس تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاہے اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کی قدموں میں پلٹ آئیں اور اسلام نے جو مقام ومرتبہ عورت کو دیا ہے وہ مقام و مرتبہ عورت کو دیا جائے۔