وہ بہت عام سی اک لڑکی تھی گھر سے نکلتی یونیورسٹی جاتی اور پھر یونیورسٹی سے گھر آ جاتی ۔ علم حاصل کرنے کا شوق تھا اسے سو پوری تندہی سے مگن تھی۔ وہ گھر سے نکلتی تو ذہن میں رکھتی کہ باہر کی دنیا ایک آزمائش ہے اسے آگے تو بڑھنا ہے مگر مان بھی رکھنا ہے اپنے والدین کی تربیت کا۔ اپنے اللّٰہ کا۔ اسے اس کی حدود کا بہت اچھی طرح سے پتا تھا اسے معلوم تھا کہ اللہ رب العزت نے اسے عورت بنایا ہے تو اسے پردے میں رہنا ہے لیکن اس ذات پاک نے اسے باندھنے کے لیے یہ حکم نہیں دیا بلکہ یہ حجاب یہ پردہ اس کی پہچان ہے جو اسے دوسری قوموں سے الگ کرتا ہے جو اسے وقار بخشتا ہے۔ اسے تحفظ دیتا ہے۔
پھر وہ کیوں ڈر جاتی؟ ان سر پھروں ہندو غنڈوں سے جو اس کے حجاب پہ عتاب بن کے نازل ہونا چاھتے تھے۔ جو اس کی پہچان ،اس کا وقار چھین لینا چاھتے تھے، جو برس ہا برس سے اسلام دشمنی نبھا رہے تھے اور دن بدن ان کی یہ دشمنی مزید بڑھتی ہی جا رہی تھی کبھی گائے ذبح کرنے پہ پابندی تو کبھی نماز نہ پڑھنے دینا، مساجد کو شہید کرنا اور اب اس کے حجاب کے پیچھے پڑ جانا کہ کوئی مسلم عورت حجاب نہیں لے گی ورنہ اس پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔
تو ایسا اب وہ نہیں ہونے دے گی وہ پوری شان سے حجاب اوڑھے اپنی درس گاہ میں داخل ہوئی۔ وہ تنہا تھی اور ہندو غنڈوں کا ہجوم تھا ایک لمحے کو خوف غالب آیا مگر اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوا کہ وہ تنہا نہیں اس کا اللّٰہ اس کے ساتھ ہے وہ پوری قوت سے پکاری “اللّٰہ اکبر” اللّٰہ اکبر” ان کے نعروں کا جواب اس نے بار بار نعرہء تکبیر سے دے کر ثابت کر دیا کہ مسلم عورت کمزور نہیں وہ اپنے اللہ کے لیے اپنے حجاب کے لیے جان بھی دے سکتی ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتی۔
وہ ایک عام سی لڑکی تھی مگر اب وہ بہت خاص بن چکی تھی نہ صرف اپنے رب کے حضور بلکہ تمام اُمت مسلمہ کے لیے۔ سلام ہے قوم کی اس بیٹی مسکان کو اور اس کی تربیت کرنے والے والدین کو ۔ لبرل ازم کا نعرہ لگانے والی عورت کو اس سے سبق لینا چاھیے اور سوچنا چاہئے کہ خاص کون ہے؟اور بحیثیت مسلمان عورت ہماری پہچان کیا ہے؟