زبان اور ابلاغ

 

اکیس فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جا رہا ہے میری طرح ہر ماہر ابلاغیات یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ زبان اور ابلاغ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے آپ اپنی مادری زبان میں اپنا مافی الضمیر زیادہ سہولت اور وسیع انداز میں بیان کر سکتے ہیں۔

ہر ابلاغیات کا طالب علم یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کے آپ کسی بھی چیز یا راۓ کو اپنے فریم آف ریفرنس کے ذریعے پرکھتے ہیں پاکستان میں جب ایک بچہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کرتا ہے تو ہر بچے کا خاندانی پس منظر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اس میں بعض اوقات لسانی فرق بھی موجود ہوتا ہے ہمارے ہاں بچے کو اسکول جاتے ہی انگریزی زبان سیکھنے کے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور جب وہ مذہبی تعلیمات کا رخ کرتا ہے تو وہاں ایک نئ زبان اس کے انتظار میں کھڑی نظر آتی ہے اور جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ ابلاغ کرتا ہے تو اپنی مادری زبان کو اپناتا ہے پاکستان کی آدھی آبادی اس جنم جلی انگریزی کی وجہ سے کوئ قابل قدر ڈگری حاصل نہیں کر پائ یا اسکول سے ہی بھاگ نکلی جس کے سبب ہم نا ہی انگریزی دان بن سکے اور نا ہی اپنی مادری زبانوں کی حفاظت کر پاۓ۔

اپنی زبان سے محبت کا یہ عالم ہے کے میرے ایک دوست نے اردو میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لی میں نے انہیں ڈھیر ساری مبارکباد دی اور ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی انہوں نے کہا جب میں لوگوں کو یہ بتاتا ہوں کہ میں نے اردو میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے تو لوگ کہتے ہیں اتنے آسان مضمون میں آپ نے پی ایچ ڈی کی اور بعض دفعہ تو بتاتے بھی ندامت محسوس ہوتی ہے کہ ایسے جیسے اردو کوئ مضمون ہی نا ہو آج ہم دنیا کی ترقی دیکھ کے اور ان کی کرنسی کے ہاتھوں اپنے روپیے کو پٹتا دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں اور یہ نہیں دیکھ پاتے کے ان قوموں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں ہیں چاہے وہ مذہبی فکر ہو یا دنیاوی تعلیم انگریز عیسائ بائبل کو انگریزی میں پڑھتے نظر آتے ہیں اور ہماری کرسچن کمیونٹی اسی کتاب کو اپنی ملکی زبان اردو میں پڑھتی ہے ہمارے ہاں حافظوں اور حاجیوں کی آپ کو ایک کثیر تعداد ملے گی لیکن اسلامی عمل بالکل نظر نہیں آتا کیوں کہ ہم قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتے سائنس جیسے مشکل مضامین جن میں مشکل مشکل ٹرمنالوجیز استعمال ہوتی ہیں۔

ایک چھوٹی کلاس کے بچے کی زبان ان الفاظ کو ادا کرتے یوں لڑکھڑا جاتی ہے جیسے اس کی زبان کے ساتھ کسی نے بھاری بھرکم پتھر باندھ دیے ہوں زبان کی اسی رکاوٹ کی وجہ سے ہم آج تک اپنے مذہب کو نہیں سمجھ پاۓ انگریزی زبان کے سبب علم کو نہیں سمجھ پاۓ جب دین اور دنیا کو سمجھ ہی نہیں پا رہے تو پھر ترقی کیسے اور کیونکر ممکن ہے اور جہاں تک رہا ہماری مادری زبان کا سوال آپ چاہے پشتون ہوں سندھی ہوں بلوچ یا پھر پنجابی آپ کی زبان میں سے درجنوں الفاظ اب متروک ہو چکے ہیں جنہیں ہمارے باپ دادا کبھی بولا کرتے تھے تو کیا اس ترقی پر فخر کیا جاۓ اگر آپ کو اس بات پر فخر ہے تو آپ کو مادری زبان کا عالمی دن بہت بہت مبارک ہو ویسے بھی ہمارے ملک میں براہوی سمیت بہت سی ایسی زبانیں ہیں جو رفتہ رفتہ معدوم ہو تی جا رہی ہیں جن کی ہمیں ذرہ بھی پرواہ نہیں اور ہماری قومی زبان اردو جس کے ہم خود سب سے بڑے دشمن بنے بیٹھے ہیں اس میں آج ترکی فارسی ہندی انگریزی عربی اور پتا نہیں کتنی زبانوں کے الفاظ کثیر تعدا د میں شامل ہو کر اسے متنجن کی طرح پیش کرتے نظر آتے ہیں مادری زبان کا عالمی دن منانے کے لیے اپنی زبان کی خدمت کی جاتی ہے اسے وقعت وسعت اور عزت دی جاتی ہے کیا ہم اس طرح اپنی مادری زبانوں کی خدمت کر پا رہے ہیں جس طرح کے ان کا حق ہے یقیناً نہیں۔