جیسی رعایا ویسے حکمران

ضرب المثل مشہور ہے کہ ” اسکول میں پرنسپل نے ٹیچر سے کہا کہ بچوں سے دس روپے فارم کے لینے ہیں، ٹیچر نے کلاس میں آ کر بچوں سے کہا کہ صبح بیس روپے اسکول فارم کے لے آنا، بچے نے گھر جا کر اپنی والدہ کو یہی رقم بیس کی بجائے پچاس بتائی اور اسکی والدہ نے یہی رقم بچے کے والد کو آگے بتاکر سو 100کر لی”۔ یہ ضرب المثل حقیقت پر مبنی ہے۔

افسوس بحیثیت قوم ہم قدرے کرپٹ ہو چکے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اگرچہ مجموعی بد عنوان نہیں لیکن اس منزل کی جانب گامزن ضرور ہے۔ معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام ایمانداری اور پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، ذخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقیناًاس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟

حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہےں، عوام اگر اچھے، نےک، اےماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نےک اور صاحب کردار ہوتے ہےں۔ عوام اگر بد عنوان، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی اےسے ہی ملتے ہےں۔ ےعنی جےسے عوام ہوں وےسے حکمران ان پر مسلط کردےے جاتے ہےں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے۔

خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے“۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ”جیسی قوم ویسے حکمران“۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر، اینٹوں ولکڑی کا برادہ، کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاءکی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔

اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم، شیمپو، میک اپ کے سامان میں مختلف بیماریوں کا باعث بننے والی اشیاءکی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ کہیں گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے ذبیحہ کی شہ رگ میںپانی کا پریشر استعمال کیا جارہا ہے تو کہیں گدھے، گھوڑے، کتے اور مردار کا گوشت مدغم کر کے فروخت کیا جا رہا ہے۔ مرغیوں کی چربی سے بنے ناقص گھی اور تیل میں بیسن کی بوندیاں اور بچوں کے کھانے کی چیزیں تلی جارہی ہیں۔

ہمارے ہاں دروازے کے باہر گلی میں بلب یہ سوچ کر نہیں لگا یا جاتا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، گھر کا کوڑا محلے کے خالی پلاٹ میں پھینک کر صفائی نصف ایمان ہے کا نعرہ لگایا جاتا ہے، ملازمت میں کام کی بجائے وقت پور ا کرنا ہی اپنی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور اکثر تو وقت بھی پورا نہیں کیا جاتا۔ کیا ایسی قوم کی دعائیں یا بد دعا اثر رکھتی ہیں۔ ہمیں ہر چیز سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔

جیسا کہ قرآن پاک میں سورة الرعد میں فرمایا گیا ہے کہ “حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی”۔ آج اگر ہم سب بحیثیت پاکستانی شہری بے ایمانی اور بددیانتی کو ترک کردیں، اور بغیر کسی مفاد کے، بغیر کسی لالچ کے، لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں لانے والے بنیں، تو مجھے یقین ہے کہ پھر وہ وقت دور نہیں جب نیک اور صاحب کردار حکمران میسر آئیں گے، ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرے کی تصویر پیش کرے گا اور ہمارا پیارا وطن پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ انشاءاللہ۔