بھارتی ریاست کرناٹک میں حجاب کی وجہ سے مسکان نامی کالج کی طالبہ کو آر ایس ایس کے غنڈوں کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسکان ایک نہتی لڑکی کالج کی طرف جا رہی ہے۔ آر ایس ایس کے غنڈے ہاتھوں لال جھنڈے پکڑے مسکان کو ہراسان کر رہے ہیں۔ جئے شری رام جئے شری رام کے نعرے لگاتے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر اس بہادر شیرنی نے اس کے جواب میں اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے۔
بھارت کے این ڈی ٹی وی جو مودی کے ظلم کے خلاف پرگروام کرتا رہا ہے کا انگلش پروگرام بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس ٹی وی پروگرام میں کالج کی طلبہ مسکان کوبلایا گیا۔ اینکر نے سوال کیا کہ اس ہجوم میں کالج سے باہر کے کتنے لڑکے تھے تو مسکان نے بتایا کہ ۰۹ فی صد باہر کے لڑکے تھے۔ ٹی وی اینکر نے مسکان کی بہادری کی تعریف کی اور اپنے مذہب اور روایات پر کار بند رہ کر پردہ کرنے والی کالج کی لڑکی مسکان کو ہراساں کرنے والے لڑکوں کی مذمت کی۔ مسکان نے ٹی وی اینکر کو بتایا کی کالج کی انتظامیہ نے مسلمان لڑکیوں کو پردہ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے یہ چند شر پسند کالج کے لڑکے باہر کے غنڈوں کے ساتھ مل کر کالج کی لڑکیوں کو پردہ کرنے سے روکتے ہیں۔
اخبارات نے بھی آج ایک تصویر لگائی ہے جس میں ایک صاحب مسکان کو شیرنی کا تحفہ پیش کر رہے ہیں۔ اسی تصویر میں مسکان کا والد مسکان کے سر پر دست شفقت رکھے ہوئے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد بھارت سمیت دنیا بھر میں اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھا ہے۔ بہادر بیٹی کوخراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔دہلی، کرناٹک، حیدر آبادِ مدھیہ پردیش، کلکتہ ، تامل ناڈو سمیت کئی ریاستوں میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ ہندو انتہا پسندی کے خلاف سوشل میڈیا پر کئی ٹاپ ٹرینڈ بن گئے ۔ کرناٹک واقعہ پر جامع کراچی سمیت ملک بھر کی جامعات میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی خواتین کی رہنما اور حلقہ خواتین کی سیکر یٹری جنرل دردانہ صدیقی نے بیان دیا کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں حجاب کے خلاف مہم قابل مذمت ہے۔ بہادر مسلمان بیٹی مسکان دنیا میں جرات کا نشان اور مسلم بچیوں کے لیے مشعل راہ بن گئی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی ناظم الامور کو طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ ٹھیک ہے یہ ایک رسم ہے جو ہماری حکومت نے ادا کی ہے ۔ بھارت کی موددی قوم پرست ہٹلرقوم صفت حکومت سے ہزاروں دفعہ ایسے احتجاج کیے جا چکے ہیں مگر بھارت کے مسلمانوں کو دبا کے رکھنے کے ہزاروں واقعات رونماء ہو چکے اور آیندہ بھی مودی قوم پرست حکومت سے سے یہی توقع ہے۔ اس کا حل احتجاج کے ساتھ ساتھ عملی اقدام کی بھی ضرورت ہے۔ بھارت میں ہجوم کسی بھی مسلمان کو گھیر کر ذبردستی جئے شری رام جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہیں ۔ انکار کی صورت میں انہیں مار مار کر ظلم و سفاکیت سے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کسی بھی مسلمان پر گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر اسے شہید کر دیتے ہیں۔ جبکہ خود مودی حکومت دنیا میں سب سے زیادہ کا ئے کا گوشت بیرون ممالک میں فروخت کرتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دہلی میں ایک مسلمان پر فریج میں گائے کے گوشت رکھنے پر شہید کر دیا گیا۔ جب مودی حکومت نے تحقیق کی تو وہ گائے کی بجائے بکرے کا گوشت نکلا۔ نام نہاد سیکولر بھارت میں ایسے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل دہلی کے مسلم کش فسادات ہوئے۔ موددی حکومت ہزاروں سال بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے ڈومیسائل طلب کرتی ہے۔ کیا اسے آگرہ کا تاج محل دہلی اور آگرہ کے لال قلعے دہلی اور اجمیر میں مسلمانوں کے دینی مراکز دہلی کی جامع مسجد نظر نہیں آتی۔ پھر ہندوستان پر محمد بن قاسم ثقفی ؒ سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کی حکمرانی کا ڈومیسائل نظر نہیں آتا۔
اصل میں بھارت نے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی ہوئی ہے۔ یہ وہ ہی پرانا طریقہ ہے جو آریوں نے ہندوستان کی قدیم آبادی دراوڑوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ پہلے نہیں جنگ میں شکست دی ۔ انہیں محکوم بنا لیا۔ قدیم آبادی کی زمینیں ذبردستی سے چھینی ان کو مار مار کے آبادیوں کے باہر مضافات میں منتقل کر دیا۔ ان کو ذات پات کے سب سے نچلے درجے میں شودر بنا دیا۔ انہیں سڑکوں پر صفائی کرنے اور لیٹرینیں صاف کرنے پر لگا دیا۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ان کو مندروں میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ ان کے سارے انسانی حقوق ہڑپ کر لیے گئے۔ یہ ذات پاتبھارت میں اب بھی ہے ۔کچھ عرصہ پہلے مودی حکومت میںسڑک پر ایکسیڈنٹ میںایک شودر مر گیا اور اس وقت کے وزیر دفاع نے کہا تھاکہ ایک کتا مر گیا تو کیا ہوا۔یہی کچھ ہٹلر صفت مودی نے گجرات کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے کیا تھا۔ ہزاروں مسلمانوں کو آر ایس ایس کے غنڈوں اور ریاستی پولیس سے قتل کروایا۔ لوگوں کو ان کے آبائی گھروں سے نکال دیا۔ وہ مضافات میں جھوپڑیاں بنا کر رہنے پر مجبور ہوئے۔ جہاں پانی اور سوریج کا نظام کا کوئی انتظام نہیں۔ اسی سفاکیت پر امریکا نے ہٹلر صفت مودی کوامریکا میں داخل ہونے پر پابندی بھی ک لگائی تھی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندتوا پر گامزن مودی بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کی نسل کشی پر اُتر آیا ہے۔ نسل کشی کے بین اقوامی ادارے کے سربراہ نے کچھ دن پہلے مودی حکومت کی اس نسل کشی کی رپورٹ جاری کی تھی۔کیا بھارت کے مسلمانوں کو یک جان ہو اس پر احتجاج ، بلکہ تحریک نہیں چلانی چاہے۔ اگر بھارت کے مسلمان اپنی حفاظت کے لیے اُٹھ کھڑے نہیں ہونگے تو قوم پرست ہٹلر صفت متعصب مودی مسلمانوں کو دڑاوروں کی طرح نجلی ذات بنا دے گا۔ مسلمان بیٹی مسکان نے بھارت کے مسلمانوں کو جرات کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو یک جان ہو کر اپنی مذہبی اور بنیادی انسانی حقوق کے یے اُٹھ گھڑا ہونا چاہئے۔
نظر آ رہا ہے کہ بھارت کے مسلمان بھارت سے علیحدہ ایک اور پاکستان بنانے کے راستے پر ڈالے جارہے ہیں۔ بھارت میں دیو بند کے علماء نے شیرنی مسکان کے لیے اس بہادری ہر پانچ لاکھ انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔ بھارت میں سیکولرزم کی حمایت کرنے والے مسلمانوں کو قائد اعظمؒ کی سوچ کی طرف پلٹنا چاہئے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنا چاہئے تاکہ بھارت کے مسلمانوں کی طرف آر ایس ایس کے غنڈے نذر اُٹھا کر نہ دیکھ سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت میں زندہ رہیں اور زندہ رہنے کے اصولوں پر ہندو اورمسلمان عمل کریں۔ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں۔ یہی آج کل کی جمہوری دنیا کا طریقہ ہے۔