سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو نظر سے گزری جس نے میرے دل کو دہلا کر رکھ دیا۔ میرے اللہ! مسلمانوں پر یہ وقت بھی آنا تھا؟ دوسری طرف لڑکی کی غیرت و حمیت، جرات دیکھ کر خوشی بھی ہوئی۔ الحمدللہ اسلام غالب ہی ہے۔ لا غالب الا اللہ۔ اس ویڈیو میں دکھایا جا رہا ہے کہ بھارت کے ضلع منڈیا کر ناٹک کے مہاتما گاندھی میموریل کالج اودو پی میں ایک مسلم طالبہ جس کا نام مسکان ہے۔ مسکان عبایہ، حجاب و نقاب میں ملبوس اپنے اسکوٹر پر بیٹھ کر کالج میں اسائنمنٹ جمع کروانے آتی ہے۔ وہ اپنے اسکوٹر سے اتر کر ابھی چند قدم ہی چلتی ہے کہ انتہا پسند ہندو لڑکوں کا جتھا اسے گھیر لیتا ہے۔ وہ لڑکے شیطانی اور مکارانہ ہنسی ہنستے ہیں، گندے اشارے کرتے ہیں، ہاتھوں میں پکڑے سرخ کپڑے فضا میں لہراتے ہیں اور زبانوں سے جے شری رام کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہم ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں اس تنہا لڑکی نے اس وقت نہ تو یہ سوچا کہ اس شرپسند جتھے کے سامنے (جو چند لڑکے نہیں تھے بلکہ کئی دہائی تعداد پر مشتمل پورا ہجوم تھا) یہ مجھے کوئی نقصان ہی نہ پہنچا دیں بلکہ اس نے اسے اسلام اور کفر کا مقابلہ سمجھتے ہوئے، جرات و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دینی حمیت دکھائی اور بلند آواز کے ساتھ جے شری رام کے نعرے کے جواب میں اللہ اکبر کے نعرے لگا کر ہندو سامراج کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ ہم مسلمان تو صرف اپنے رب کے غلام ہیں۔ ہمارے لئے اس کے حکم کے علاوہ کوئی قانون نہیں۔ ہمارا جینا مرنا صرف اپنے رب کے لئے ہے۔ اگر اس رب کا حکم عورت کے لیے باوقار اور مستور رہنے کا ہے تو میں اعلان کرتی ہوں ہم ایسے ہی رہیں گیں۔
اس لڑکی کی پر ایمان بہادری دیکھ کر مجھے مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا لکھا ہوا یہ پیرا یاد آ گیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔”یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اُتری۔ نفس کے بندوں اور غلاموں کے لیے نہیں اتری۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہاؤ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں۔ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں۔ جو صبغت اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں”۔
بھارت میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے عدالتی فیصلے نے پوری دنیا کو بھارت کا منافقانہ، مکارانہ اور قبیح چہرہ دکھایا ہے۔ بھارت جو ایک ایک سیکولر ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن مسلمانوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی آسانی کیوں نہیں دیتا؟ حالانکہ وہاں مسلمان اقلیت نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں بستے ہیں۔ مسلمانوں کو نمائندگی کا حق کیوں نہیں دیتا؟ مسلمان عید قربان پر گائے کیوں نہیں ذبح کر سکتے؟ مختلف واقعات میں سر عام مسلمانوں کو شہید کیا اور جلایا تک گیا۔ وہ مسلمانوں کو تنگ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اب رہی سہی کسر ان کی عدلیہ نے نکال دی کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگادی پھر اس پابندی کے نفاذ کے لیے تعلیمی اداروں کے باہر پولیس والے کھڑے کر دیے۔ عدالت کی بھی یہ سب کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ منافقانہ روش بھی جاری ہے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں بیان دیا ہے کہ ریاست تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔ کہاں ہے یہ مذاہب کا احترام؟ حالانکہ ان کے ملک میں ہندوؤں کے بعد سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے اور موجودہ دنیا میں حجاب و نقاب صرف مسلمان عورت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ انہیں تو مسلمان عورت کا سر پر لپیٹنے والا صرف دو گز کا کپڑا ہی برداشت نہیں ہوتا تو مسلمانوں کا تقدس و عروج ہضم کرنا تو سرے سے ہی ناممکن ہے ان کے لیے۔
بھارت میں شروع سے ہی مسلمانوں پر کسی نہ کسی صورت میں ظلم برپا رہا ہے اور موجودہ حالات تو کھلا تمانچہ ہے ہمارے پاکستان میں بسنے والے ان چند لبرل مسلمانوں کے منہ پر جو کہتے ہیں کہ ہندوستان کے الگ دو ملک بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے درمیان جدائی ڈال دی گئی۔ پاکستان میں بسنے والو! مذہب میں آزادی کے معاملہ میں تو تم جنت میں ہو۔ تم اپنے مذہبی احکام پر عمل پیرا ہونے میں آزاد ہو۔ یہاں کوئی تم پر سختی و جبر کرنے والا نہیں۔ تم کھلم کھلا، اعلانیہ اذانیں دیتے ہو اور نمازیں ادا کرتے ہو۔ تم عید قرباں پر اپنی مرضی کا جانور ذبح کرتے ہو۔ تمہاری عورتوں کی عصمتیں محفوظ ہیں۔ حلال کھانے کی تلاش میں تمہیں کوئی مشکل نہیں۔ تمھاری بیٹیاں تعلیمی اداروں میں محفوظ ہیں اور اپنی مرضی سے جس ڈریس کوڈ میں جانا چاہیں جاتیں ہیں۔ الحمدللہ وہ مخلوط تعلیمی اداروں میں سارا وقت گاؤن اور نقاب کے ساتھ آسانی سے رہ سکتیں ہیں۔ کوئی انہیں روکنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ مبارک ہو تمہیں آزاد ملک، دارالاسلام پاکستان ملنے پر۔ اس کے ملنے پر تم جتنا بھی سجدہ شکر ادا کرو کم ہے۔ اگر کوئی اس مقدس ملک پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل پیرا نہیں تو یہ اس کی اپنی ناشکری ہے ورنہ یہاں ہر سو، ہر پل، صدائے اللہ اکبر بلند کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔