کہتے ہیں ہاتھی کا بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے پاؤں میں زنجیر پہنا دیتے ہیں جس کو توڑنے کی وہ بہت کوشش کرتا ہے لیکن وہ نہیں توڑ پاتا اور جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اس کو توڑنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن اس کے دماغ میں یہ بات راسخ ہو چکی ہوتی ہے کہ میں اس زنجیر کو نہیں توڑ سکتا تو وہ کوشش بھی نہیں کرتابس یہی حال ہم اہل کراچی کا بھی ہے۔
ہم ساڑھے تین کروڑ کی آبادی رکھنے کے باوجود اپنے مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کر پاتے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو سرکاری ہسپتال میں سہولیات کا فقدان سرکاری اسکولوں کو دیکھیں تو ان کا بھی برا حال ہے شہر کی سڑکوں پر نظر ڈالیں تو وہ بھی اپنی حالت زار پر نوحہ کناں نظر آتی ہیں ہر طرف کچرے کے ڈھیر اور اُبلتے گٹر، اجڑے پارک پینے کو صاف پانی نہیں اس سب کا ذمہ دار ہم حکومت کو ٹھہراتے ہیں، لیکن اس سب کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔
جب ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو اکثر شہری ووٹ ہی نہیں ڈالتے اور جو ڈالتے ہیں وہ اپنی برادری والے کو یا اپنی پارٹی والے کو بناسوچے سمجھے کہ ان کی پچھلی کارکردگی کیسی رہی ، لیکن اب ہمیں اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا ووٹ کی طاقت سے ہم پر جو کرپشن مافیا مسلط ہے اس مافیا کو ہٹانا ہو گا اور دیانت دار قیادت کو لانا ہوگا اور دیانت دار قیادت کو لانا ہوگا بس یہی ہم سب کی نجات کا ذریعہ ہے ۔