صرف اللہ سے ڈریں کیونکہ وہ خالق ہے ، مالک ہے اور سب سے بڑا رازق ہے اختیارات اسی کے پاس ہیں ۔بعض میڈیا والے ظلم کے خلاف نہ بول کر نہ کوریج دیکر یہ مزید ظلم کر رہے ہیں کسی حق کے خاطر نہ بولنا، خاموش رہنا ، تماشا دیکھنایہ کسی صورت ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا ۔ یہ وقت تو حق کا ساتھ دینے کا ہے اپنا فرض نبھانے کا ہے ۔
میڈیا کی اکثریت صرف پیسے کمائو، نوٹ بنائو، دنیا کو لبھائو کے چکر میں لگی ہوتی ہے ۔ ان کو سمجھ نہیں آتا کہ کیا،کب،کیسے اورکسے دکھانا ہے کس کو کتنی کوریج دینی ہے؟ ہر صحافی ، اینکر خبر لکھنے والے ، خبر لگانے والے اور دیگر میڈیا کے عملے، میزبان ، مہمان، مہربان سب کو اپنے ضمیر کی سننا چاہئے ۔
شہر قائد میں سندھ اسمبلی کے سامنے کئ روز سے جماعت اسلامی والےکراچی کے شہریوں کے حقوق کیلئے ان کے بچوں اور مستقبل کے معماروں کیلئے انتہائی سنجیدگی سے بیٹھے اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، ڈریں اللہ کی پکڑ سے مظلوم کی آہ فلک شگاف ہوتی ہے! بات جائز ہو اور سب کے حقوق میں ہو تو اسے آگے بڑھانے سے کیوں میڈیا کترا رہا ہے پہلے بھی ایسا ہوا ہے کہ ہم ڈھونڈتے رہے نہ خبروں میں ذکر ہوا نہ ہی ان اجتماعات کا ذکر کسی چینل نے طریقے سے بتایا ہو؟ سخت سردری، بارش ، تپتپاتی دھوپ میں جماعتِ اسلامی کی خواتین، مرد،بچوں اورجوانوں نے ناموسِ رسالت اور نہ جانے کن کن موقعوں پر اجتماعات کئے تھے تو میڈیا کو کوریج دیتے جان جاتی تھی ۔
آج بھی یہی حال ہے برا ئی کا وبال ہے اس لئے انہیں سچائی اچھائی اور حق نظر نہیں آرہا ذرا کوئی گھنٹہ بھر اس سخت سردی میں باہر بیٹھ کر دکھائے نا؟ کیسے یہ لوگ اپنے مؤقف پرقائم ہیں ، آنے والے کل کیلئے اپنے بچوں کیلئے اس منافقانہ ماحول سے ایک بہتر مستقبل ایک منصف اور ترقی کرتی ہوئی معیشت دلانا، مسائل کو حل کرنا اور ایک پرامن ماحول کیلئے،بہترین تعلیم ، دینی تعلیم تفریح سیرو سیاحت اور اچھا انفرا اسٹرکچرکے ساتھ ساتھ بجلی ، گیس اور صحت کے تمام منصوبوں کو اچھا بنانے باقاعدہ اپنے ملک میں ہنر مندی کو عام کرنے ۔ آمدنی کے ذرائع اور وسائل کے تحفظات پر کام کرنے ۔ روزگار کے نت نئے در کھولنے ، کچرا کنڈی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے نجات دلانے۔ کیا یہ سب کام بلا کوشش کے ہوسکتے ہیں؟۔
حکومت وفاق کی ہو یا سندھ کی اگر اپنا کام نہیں کر رہی تو کیا لوگ تماشا بنے رہیں یا ان کے ہاتھوں کھلونا؟ کیوں نہ اپنے اندر اہلیت پیدا کریں ۔ تمام شعبہ جات میں ترقی کریں ٹیکنالوجی کو قابو میں لائیں اور تمام فنڈز کو ان کے جائز کاموں کیلئے جائز طریقے سے استعمال کو یقینی بنا کر کرپشن فری معاشرہ بنائیں ۔ اس کے لئے ہی تو عوام کو جاگنا ہوگا کیا اس طرح ملک کو لٹتا دیکھتے رہیں ؟ کل اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ان پڑھ بے حس جاگیرداروں اور وڈیروں کو جگہ ملتی رہی تو پاکستان تیزی سے زوال کی طرف بڑھتا جائے گا ۔
آج بھی اگر ہم نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری نہ کی ، کراچی کے لوگوں کو شعور نہ دیا کہ اپنا آپ سنبھالواور ترقی کی راہ میں گامزن رہو، اپنا حق اور ذمہ داری پہنچا نوکسی سے نہ ڈرو نہ لڑو بلکہ اپنے کام سے کام رکھو مل جل کر پر امن طریقے سے کراچی کو پھر سے سنبھالیں ، اس کیلئے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے تعلیم ہنر ٹیکنالوجی پر بھرپور توجہ دیں جائز کاموں میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں خود احساسِ ذمہ داری سے کام کریں ۔ دن رات ایک کریں اتنے عظیم ملک اور اس کی آزادی کی قدر کریں لاکھوں لوگوں کی قربانیوں پر قربان ہو جائیں نہ کہ ٹوٹ جائیں، پلٹ جائیں ، کاش ہم اپنی انفرادی زندگی میں بھی ذمہ دار ہوں اور اجتماعی زندگی میں بھی ذمہ دار اور وفادار ہوں تو یقین جانئے ہم کسی سے کم نہیں ۔
حافظ نعیم الرحمان اورساتھی بار بار گزارش کر رہے ہیں کہ بلدیاتی ترقی ، ترمیمی ایکٹ کے خلاف دھرنا کوئی جرم نہیں اپنے حق کی خاطر ہمیں بولنا تو چاہئے ۔ جماعت اسلامی کا دھرنا کوئی کھیل تماشا نہیں ۔ آدھے مہینہ سے زیادہ ڈٹے رہنا کوئی معنی رکھتا ہے۔ پورے شہر سے ریلیاں آخر ایک شعور ہی تو ہیں، ایک جدوجہد ہے اس لئے اس تحریک میں مائیں بہنیں دھرنا دے رہی ہیں۔ سندھ حکومت کمیٹی بنا کر اچھا نتیجہ نہ دینے کا کھیل کھیل رہی ہے اس سے تو صرف فساد جنم لے گا جو ہم نہیں چاہتے جو عوام کراچی کی عوام خصوصاً متوسط درجے کے لوگ کبھی بھی کسی بڑے فساد کے متحمل نہیں ہوسکتے تو حکومتی اداروں کو سندھ حکومت کو میڈیا کو اس کا پر امن اور مستقل خوش آئند حل نکالنا چاہئے تا کہ دھرنے کے افراد کو ریلیف دیں کسی کے صبر کو اتنا نہ آزمائو کہ خود پشیمان ہو جائو ۔
اللہ خبیر ہے اس کی لاٹھی بے آواز ہے ڈرنا چاہئے۔ کبر سے غرور سے اپنے غلط روئیے سے مظلوم کی آہ سے کہ وقت کی کایا پلٹتے دیر نہیں لگتی ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سندھ حکومت اور دیگر متعلقہ شعبوں ، وفاقی حکومتوں کو نیک ہدایت دے اور وہ ایسے فیصلے کریں جو سب کے حق میں بہتر ہوں ۔ زندگی کو آسان کریں ۔ جائز طریقے سے زندگی جینے کا حق دیں ۔ روٹی کپڑا مکان کے ساتھ دیگر سہولیات بھی دیں تا کہ شکایت کا موقع ہی نہ ملے اور سب مل جل کر اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں۔