پوری دنیا میں اس وقت اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے،فرانس سمیت یورپی ممالک میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں،جس سے اسلام دشمن طاقتیں خوفزدہ ہیں اوراسی کا نتیجہ ہے کہ آئے دن اسلام اور مسلمانوں کی دل آزاری کی کوششیں کی جاتی ہیں،کبھی پیغمبر اسلام ﷺ کی شان مبارک میں کارٹون بناکر گستاخی کی جاتی ہے،کبھی صحابہ کی مقدس جماعت کونشانہ بنایا جاتاہے تو کبھی قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے اس طرح مختلف طرح کے حربے اپنائے جاتے ہیں۔
فرانس میں ایک کے بعد ایک مساجد پر تالے لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کین شہر میں بند کی گئی مسجد کے تعلق سے فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینن کے مطابق ’’ ہم نے کین شہر کی مسجد کو بند کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ ہم نے اسے یہودی مخالف فقرے کسنے اور نفرت پھیلانے کا ذمہ دار پایا ہے۔‘‘ مزیدنے کہا کہ’’ مسجد کو 2 ممنوعہ تنظیموں کلیکٹیو اگینسٹ اسلاموفوبیا ان فرانس اور بارکا سٹی کی حمایت کرنے کا مجرم بھی پایا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ گزشتہ سال پیغمبر اسلام ؐکے آہانت آمیز خاکہ اسکول میں دکھائے جانے پر اسکول ٹیچر کے قتل کے بعد ان دونوں تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
جیسا کہ گزشتہ سال فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ’مشتبہ سرگرمیوں‘ والی مساجد کی بندش کاحکم دیا گیا تھا۔ اسی قانون کے تحت کین کی مسجد کو بھی کم از کم چھ ماہ کیلئے بند رکھا جائے گا۔ یاد رہے کہ ایمانویل میکرون نے گزشتہ سال یہ متنازع بیان دیا تھا کہ’’ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اس وقت دنیا بھر میں بحران کا شکار ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کی فرانس میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے نیا قانون پیش کیا تھا۔ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد مسلمانوں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کی گئی تھیں اس کے ساتھ ساتھ تب سے اب تک درجنوں مساجد پر تالا لگایا جا چکا ہے۔ جبکہ اس قانون کے غلط استعمال کی شکایت کرنے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
مقامی مسلمانوں کی شکایت ہے کہ اسلامی کتابوں میں درج تعلیمات کو بیان کرنے پر بھی حکام کارروائی کرنے کا حکم دیدیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس طرح کے قانون کے خلاف جہاں فرانس میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا وہیں عالمی سطح پر بھی اس پر تنقیدیں ہوئی تھیں۔ فرانس میں مساجد اور نماز ہالزکی مجموعی تعداد 2623 ہے تاہم حکومت نے 70 مساجد کو بنیاد پرستی کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔اس سے قبل 2020ء میں فرانس کے ایک اسکول میں طالب علموں کے سامنے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کا سر قلم کردیا گیا تھا جس کے بعد فرانسیسی صدر نے اس واقعے اور اسی سے متعلق دیگرحملوں کے خلاف فرانسیسی سیکولرازم کی کھل کر حمایت کی اور متنازع بیانات بھی دیے جس کے بعد فرانس کو دنیا بھر میں مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور مصنوعات کے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
فرانس مغربی یورپ کا ایک خود مختار ملک ہے،جون 2018 ء کے سروے کے مطابق فرانس کی مجموعی آبادی 6کروڑ 71لاکھ 86ہزار 6سو اڑتیس لوگوں پر مشتمل ہے،فرانس ایک نیم وحدانی جمہوریہ ہے،جسکا دارالحکومت پیرس ہے،یہ فرانس کا سب سے بڑا شہر اور ملک کا اہم ترین ثقافتی واقتصادی مرکز ہے ۔فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے،جوخام ملکی پیدوار کے لحاظ سے دنیا کی ساتویں اورمساوی قوت خرید کے لحاظ سے نویں بڑی معیشت سمجھا جاتاہے،اقوامِ متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں حق استرداد حاصل ہونے کی بنا پر اسے دنیا کی عظیم طاقت اور باضابطہ جوہری قوت کا حامل ملک سمجھا جاتاہے،
اسکے علاوہ وہ نیٹو فوج،انجمن اقتصادی تعاون وترقی،عالمی تجارتی ادارہ اور فرانسیسی بین الاقوامی تنظیم کا بھی رکن رکین ہے۔فرانس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 60لاکھ ہے جن میں سے اکثر شمالی افریقی مسلم ممالک اور مشرقِ وسطی کے مہاجرین ہین ہیں،جنوبی ایشیائی ممالک ہندوستان پاکستان،اور بنگلہ دیش وغیرہ کے مسلمان کم ہیں،مقامی آبادی سے حلقہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے،انیسویں اور بیسویں صدی میں فرانس برطانیہ کے بعد دوسری بڑی عالمی طاقت کے طورپر جانا جاتاتھا،شمالی افریقہ ممالک مراکش،تیونس،الجزائر،سینی گال اور مشرق وسطی میں لبنان اسکے مفتوحہ ممالک تھے۔
کم وبیش تین سال اس نے مصر کو بھی غلام بنائے رکھا،پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی فرانس کے زیرقبضہ ممالک سے مسلمان،فرانس منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے،لیکن خاص طور پر 1950 ء کے بعد بڑی تعداد میں مسلمانوں نے فرانس کی طرف ہجرت کی،1962 ء میں الجزائر کو آزادی ملی،وہاں کے جن باشندوں نے مجاہدین آزادی کے خلاف فرانسیسی فوج کاساتھ دیاتھا،آزادی کے بعد انھیں فرانس میں پناہ دی گئی،جنکی تعداد تقریباً 90ہزار تھی،فرانس کی معاشی وصنعتی ترقی بھی بعد کے سالوں میں ہنرمند مسلمانوں کی ہجرت کا سبب بنی اورجنگ زدہ مسلم ممالک کے باشندے امن اور پناہ کی تلاش میں وہاں منتقل ہوتے رہے،جسکا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ساٹھ لاکھ مسلمانوں میں کم وبیش 35لاکھ عرب افریقی مسلم مہاجر اورانکی اولاد ہیں،ڈھائی ہزار سے زائد وہاں مساجد ہیں،جن میں سے دوسو کے قریب پیرس میں ہیں،فرانسیسی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم’’مسلم کونسل آف فرانس ‘‘ہے جو 2003 ء میں قائم کی گئی،یورپی ممالک میں فرانس مسلم آبادی کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ فرانس میں انتہاء پسندی کی روک تھام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سخت پابندیوں اور کڑی نگرانی کیلئے قانون لاگو کیا گیا ہے ۔ فرانس کے مسلمان مسلسل نشانے پر ہیں،اور اسلام کی مقبولیت سے فرانس کی موجودہ حکومت خوفزدہ ہے ۔بی بی سی کے مطابق 2015 ء سے اب تک شدت پسندوں کے حملوں میں ڈھائی سو سے زیادہ مسلمان شہید کردئیے گئے ہیں۔