اولاد کو اللہ ربّ العزت نے دنیاوی زندگی میں رونق بیان کیا ہے۔ یہ رونق اسی وقت ہے جب والدین کی جانب سے اپنی زمہ داری کو پورا کرتے ہوئے بچوں کی صحیح نشوونما، دینی واخلاقی تربیت کی جائے ۔ اور بچپن ہی سے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔
اسی لیے فلاح انسانیت کے مذہب اسلام میں جہاں والدین کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور اولاد کو والدین کی فرمانبرداری کی ترغیب دی گئی ہے ، وہاں والدین کو اولاد کی بہترین تربیت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماں باپ دونوں کو اولاد سے خواہ وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں،بلا تفریق محبت کرتے ہوئے ان کے حقوق ادا کرنا چاہیے۔ بلکہ ہر معاملے کی طرح اولاد کی پرورش اور تربیت کے معاملے میں بھی قرآن مجید فرقان حمید کی روشن تعلیمات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے ۔
اولاد کی تربیت کے بارے میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’ کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے ‘‘ (سنن الترمزی )۔ حضرت لقمان نے جو وصیت اپنے بیٹے کو کی تھی اللہ جل شانہ اسے قرآن کریم میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا ’’ اے بیٹے! اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا ،بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ‘‘۔ حضرت لقمان نے آگے فرمایا کہ ’’ اے میرے بیٹے!اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تو بھی اسے معمولی نہ سمجھناوہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ظاہر فرمائیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین وباخبر ہے۔
اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو ،اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو ،اور برے کاموں سے منع کیا کرو،اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو،بے شک یہ(صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے۔اور لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ،اور زمین پر تکبر سے مت چلو، بے شک اللہ تعالیٰ کسی متکبر کو پسند نہیں فرماتے ،اور اپنی چال میں میانہ روی اختیا رکرو،اور اپنی آواز کو پست رکھو ،بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے‘‘ (سورۃ لقمان )۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت حکیم لقمان کی دانائی وحکمت والی نصیحتیں جو انہوں نے اپنے فرزند سے کیں انہیں بیان فرماکر چند باتوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ، کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس کے نام سے نہیں پکارا ،بلکہ اے میرے بیٹے کہہ کر پکارا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام لینے سے محبت کا وہ اظہار نہیں ہوتا ،جو’’ اے میرے بیٹے ‘‘کہنے سے محبت کا اظہارہوتا ہے۔ جس طرح ماں لاشعوری عمر میں بچے کو محبت میں ’’میرالعل ،میراچاند ،میرا سوہنا‘‘ وغیرہ جیسے القابات سے پکارتی ہے اسی طرح جب بچہ شعوری عمر کو پہنچ جائے تو والدین اس سے اسی اندازِ محبت میں بات کریں تو ماں باپ کی بات بچے کے دل ودماغ پر اثر انداز ہوگی۔
سب سے پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی ،وہ توحید باری تعالیٰ سے متعلق تھی کہ’’ میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا‘‘۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ بچے کو سب سے پہلی دینی عقائد وافکار کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ بڑا ہوکر وہ ایک اچھا مسلمان بنے ، کیونکہ اس کے عقائد جب صحیح ہوں گے تو اعمال بھی ان شاء اللہ صحیح ہوںگے ، اوراگر عقائد قرآن وسنت سے متصادم ہوئے تو یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ راست اعمال کرے گا ۔ بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ مضبوط وپائیدار ہوتی ہے، اس لئے سب سے پہلے بچے کو دینی و اخلاقی تعلیم دی جائے۔
قرآن وسنت کی تعلیم دینی امور کے ماہر اساتذہ سے دلوائی جائے۔ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جسمانی تکلیف مثلاً دانت میں درد ہوتو ہم دانت کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ،دل کا مسئلہ ہو تو ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں لیکن جب علم قرآن کریم واحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ پیش آتا ہے تو ہم ایک مستند عالم دین کو چھوڑ کر غیر عالم کے پاس جاتے ہیں ،جس سے اکثر بگاڑ پید اہوتا ہے۔ آگے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ’’ میرے بیٹے! عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو روزِ محشر اللہ تعالیٰ اسے تمہارے سامنے لے آئیں گے۔‘‘ یعنی کوئی عمل خواہ وہ اچھا ہویا برا ،اسے معمولی مت سمجھنا کہ روزِ محشر تمہیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر عمل صالح ہے تو وہ تمہارے لئے روزِ محشر مفید ثابت ہو گا اور ہوسکتا ہے کہ جسے تم معمولی سمجھو روزِ محشر وہی تمہاری شفاعت کا سبب بن جائے اور اگر وہ عمل طالح (برے)ہیں ،تو تم بروزِ محشر اسے چھپا نہ پائو گے ،اللہ تعالیٰ اس عمل کو جسے تم معمولی سمجھ رہے ہوگے تمہارے سامنے ظاہر کردیں گے اور وہاں انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔ حضرت لقمان مزید فرماتے ہیں کہ’’ اے میرے بیٹے ،نمازقائم کرو ،اور اچھے کاموں کی تلقین کیا کرو اور برے کاموں سے منع کیا کرو۔‘‘ حضرت لقمان کے اس فرمان میں تین امر ہیں۔ (1) یہ کہ نماز قائم کرو۔ نماز ہر شریعت میں رہی ہے۔ اس کی کیفیت و ہیت میں تبدیلی واقع ہوتی رہی ، پھر نماز کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ کی مدد چاہو ،نماز اور صبر کے ذریعہ سے ‘‘۔ اسی طرح نماز جسم وروح کے لئے باعث سکون وراحت ہے ، اور ایک مسلمان نماز کو صرف اللہ کا حکم سمجھ کر پڑھے تو اس سے مالک حقیقی راضی ہوگا اور جب مالک راضی ہوتا ہے تو بندہ پر انعامات کی بارش کرتا ہے۔(2) یہ کہ اچھے کاموں کا حکم کرو۔
ایک شخص دوسرے کو جب اچھائی کا حکم دے گا تو لامحالہ امر ہے کہ اول وہ خود بھی اچھے کام کرے گا۔ ( 3) یہ کہ برائی سے منع کرنا۔ بلاشبہ برائی سے منع کرنا بھی اسی وقت ممکن ہے جب بندہ خود برائی سے باز رہے۔ اگر کوئی شخص خود برے کام کرے اور دوسروں کو کہے یہ نہ کرو تو اس کا کتنا اثر ہوگا یہ ہر عام وخاص جانتا ہے۔ اور جب ایک شخص اچھے کام کرتا ہے اور اچھائی کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے باز رہتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے تو لامحالہ بہت سے لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں ،وہ اسے جانی نقصان نہ بھی پہنچائیں ذہنی اذیت دیتے رہتے ہیں، جس پر اسے صبر کرنا ہے اور یہ لمحات بڑے ہمت کے ہوتے ہیں کہ بے وجہ تنقید برداشت کی جائے ،بے وجہ کے طعنے سنے جائیں ، اس پر طنز واستہزاء کے تیر برسائیں جائیں اور ان سب کے جواب میں وہ خاموش رہے اس کے لئے بڑی ہمت وبڑا حوصلہ چاہیے اور یہی بات حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمائی تھی کہ صبر کرنااور صبر کرنا بڑی ہمت کا کام ہے۔
اور جن لوگوں سے مزاج نہیں ملتے ،ان سے بھی بے رخی سے بات مت کرو، حضرت لقمان نے اپنے لخت ِ جگر کو اس سے منع فرمایا اور مزید فرمایا کہ متکبر مت بنے ،یعنی بے رخی کا معاملہ تکبر کے زینے کی پہلی سیڑھی ہے ،اس سے بچنا اور ساتھ ہی فرمادیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بھی متکبرین کو پسند نہیں فرماتے اس لئے تکبر سے بچنا۔اس کے ساتھ ہی حضرت لقمان نے فرمایا کہ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو،یعنی زمین پر اکڑ کر چلنا بھی تکبر ہے۔زمین پر اکڑ کرمت چلو ، اعتدال ہر شے میں لائق تعریف ومدح ہوتا ہے او ر افراط وتفریط لائق مذمت ،اس لئے ان دونوں امور سے بچ بچا کر ایام ہائے حیات بسر کرو۔
آخری بات حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو یہ سکھائی کہ اے میرے بیٹے !اپنی آواز کو پست رکھو۔یہاں بھی وہی درج بالا امر ہے یعنی عدل ، اعتدال۔یعنی آواز نہ اتنی پست ہو کہ دوسرا سن ہی نہ سکے اور نہ ہی اتنا زور سے بولے کہ دوسروں کی آواز تم نہ سن سکو۔یاد رکھو کہ گدھا زور سے بولتا ہے ، جس کی آواز ساری آ وازوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔ حضرت لقمان کی اپنے فرزند کو کی گئیں یہ نصیحتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں اپنی اولاد سے ان کی نفسیات سامنے رکھ کر ،ان کی ذہنی اپروچ کا انداز لگا کر بات چیت کرتے رہنا چاہیے اور آج کے ماحول کا تقاضا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفتگو کریں، ان کے مسائل اور پریشانیوں کو سنیں اور حل کریں ، کیونکہ ڈانٹ ڈپٹنے کے دور گزر چکے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ10 برس رہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان10 برسوں میں کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔ایک واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا۔میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں لگ گیا، اس کے باوجود بھی نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’اپنی اولاد کے ساتھ نرمی برتو،اور ان کی بہتر تربیت کر و‘‘۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اولاد کی بہتر تربیت کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور اولاد کی تربیت اگر شعائر اسلام اور طرزِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کی گئی تو ان شاء اللہ اولاد کی دنیا وآخرت بھی سنوارے گی اور اولاد مطیع فرمابردار اور خدمت کرنے والی بھی ہوگی۔ والدین کی طرف سے اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت والدین کے لئے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ہے۔