جدوجہد کے میدانوں کا شہسوار قاضی حسین احمد 6 جنوری 2013کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔
وہ میرا دوست کہہ رہا تھا وہاں عجیب سا سکون ہے!جی چاہتا ہے وہاں کوئی گوشہ عافیت بنا لوں،وہ برسوں بعد پہلی بار زیارت کاکا صاحب گیاتھا کہنے لگا وہاں ایک چرواہا ملا اس نے مجھے دیکھا کہ میں طویل فاصلہ طے کر کے کراچی سے سلام کرنے آیا ہوں تو وہ مسکرایا اور نرمی سے بولاجب سے قاضی بابا ہمارے گاوں آئے ہیں یہاں بہت رونق ہو گئی ہے۔
سخت پتھریلے پہاڑوں کے درمیان اس گاوں کے بیچوں بیچ قاضی بابااسودہ خاک ہیں وہاں اوپر ہموار زمین پرجب بچے کرکٹ و فٹبال کھیلتے ہیں تو یوں لگتا ہے قاضی صاحب کے آنگن میں قہقہے گونج رہے ہیں اور وہ محویت سے اپنی عصا پر تھوڑی ٹکائے ان معصوموں کو دیکھ رہے ہیں،وہ اس سفر سے لوٹا ہے تو بتاتا ہے کہ قاضی بابا کی قبر کو اس خوبصورت ہرے بھرے سرسبز و شاداب پودے نے ڈھانپا ہوا ہے۔
وہ مجھےبولا آپ بھی اُدھر جائیں ناں کسی بہار کی صبح ؟۔۔۔۔سنا ہے بہار میں قبر خوش رنگ پھولوں سے بھر جاتی ہے۔
اب میں اُسے کیا بتاوں ! جس نے ان کے ہونٹوں سے جھڑتے پھول سمیٹے ہوں وہ ان کی قبر کے پھول مشکل سے ہی دیکھ پاتا ہے ! اب میں اسے کیا بتاوں کہ قاضی بابا پتھریلے پرپیچ راستوں کے اس شہسوارکا نام تھا جسے ہمیشہ ایک دریا پار کرنے پر دوسرے دریا کا سامنا رہاوہ اسلامی تاریخ میں مزاحمت کی علامت جلال الدین خوارزم شاہ کے لشکر کاوہ سالار تھا جس کی زندگی دراصل گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر رزم گاہوں میں گزری تھی۔
قاضی بابااس قبیلے کے ان آخری آخری لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جدوجہد کے میدانوں میں جنم لیا تھا،وہ شاہسوار پانچ اور چھ جنوری کی اس سرد رات جدوجہد کے میدان میں گھوڑے سے اترا، نہیں بلکہ سہارا دے کر اتارا گیا تو معلوم ہواکہ وہ تو شاید اب بھی نہ اترتا اگر اسکی مہلت عمل مکمل نہ ہو چکی ہوتی ۔۔۔اور اپنے رب کے ساتھ کیا وعدہ نبھا کر اب وہ ارام کو اترا بھی تو اس نے اپنے ہم مزاج پہاڑوں ہی کا انتخاب کیا۔
قوت کی علامت ،بلند قامت ،طاقتور ،اونچے اور زمین میں اندر تک پیوست پہاڑ !یہ پہاڑ اور بابا کاکردار کتنےملتے جلتے ہیں ناں؟اسی لئے وہ دونوں اب ہمیشہ کے لئے ایک ساتھ ہیں ،ہم آغوش ہیں،،،،،ان کا گوشہ عافیت آباد ہے! دوردور تک پھیلی پرجلال خاموشی دراصل اس لئے ہے کہ اس کا ارام خراب نہ ہو،،،وہاں پھول اس لئے ہیں کہ اس کی شگفتگی کو اگلی نسلیں یاد رکھیں،،،وہاں بہار کی ہوا اس لئے سرسراتی ،گنگناتی ہوئی گزرتی ہے کہ جب یہ نغمگی پیدا کرے تو لوگوں کےحافظے میں اس کا کلام اقبال پڑھنا تازہ ہو جائے۔۔
وہ بظاہر وہاں اسودہ خاک ہے مگروہ خوشبو بن کر بکھر چکا ہے۔۔
میں کسی دن اس خوشبو کو محسوس کرنے وہاں جاوں گا۔
ان شا اللہ