میرے عظیم قائد

پچیس دسمبر 1876ء کو اس عظیم ہستی اور بلند پایہ انسان کا یوم ولادت ہے جنہیں ہم بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتے ہیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح جب پیدا ہوئے تو کون جانتا تھا کہ جناح پوجا کے ہاں پیدا ہونے والا یہ بچہ ایسا بے مثال کارنامہ سر انجام دے گا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے گی۔
منشاء الٰہی اور منشاء نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت مسلمانوں کی قیادت کے لیے محمد علی جناح کا انتخاب ہوا۔ علامہ اقبال اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے بے شمار خطوط لکھے اور رہنماؤں نے لندن قیام کے دوران ملاقاتیں بھی کیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ہندوستان آنے کیلئے اصرار بھی کیا لیکن وہ کسی نتیجے پر ابھی پہنچ نہیں پائے تھے کہ ایک دن ان کے ساتھ ناقابل فراموش واقعہ پیش آیا۔
قائداعظم فرماتے ہیں کہ میں لندن میں اپنے فلیٹ میں سویا ہوا تھا، رات کا پچھلا پہر ہوگا۔ میرے بستر کو کسی نے ہلایا، میں نے آنکھیں کھولیں، اِدھر اْدھر دیکھا، کوئی نظر نہ آیا، میں پھر سو گیا۔ میرا بستر پھر ہلا، میں پھر اْٹھا۔ کمرے میں اِدھر اْدھر دیکھا، کچھ نظر نہ آیا۔ سوچا شاید زلزلہ آیا ہو، کمرے سے باہر نکل کر دوسرے فلیٹوں کا جائزہ لیا تو لوگ نیند کے مزے لے رہے تھے۔ میں واپس کمرے میں آکر پھر سو گیا۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ پھر کسی نے میرا بستر زور سے جھنجھوڑا، میں ہڑبڑا کر اْٹھا۔ پورا کمرہ معطر تھا، میں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ ایک غیرمعمولی شخصیت میرے کمرے میں موجود ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کون ہیں؟آگے سے جواب آیا کہ ’’میں تمہارا پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔‘‘میں جہاں تھا، وہیں بیٹھ گیا، دونوں ہاتھ باندھ لیے۔ فوراً میرے منہ سے نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم ۔ ایک بار پھر وہ خوبصورت آواز گونجی۔ محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوں کو تمہاری فوری ضرورت ہے اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تحریک آزادی کا فریضہ انجام دو، میں تمہارے ساتھ ہوں، تم بالکل فکر نہ کرو، ان شاء اللہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگے۔ میں ہمہ تن گوش تھا، صرف اتنا کہہ سکا آقا صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ میں مسرت و انبساط اور حیرت کے سمندر میں غرق تھا کہ کہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور کہاں میں اور پھر یہ شرف ہم کلامی یہ عظیم واقعہ میری واپسی کا باعث بنا۔ابتدائی ایام میں علمائے کرام اور مشائخ عظام نے قائداعظم کے بارے میں کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔ ان میں سے اکثر کی رہنمائی بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ (نوائے وقت 27دسمبر2012۔سیدنصیب اللہ گردیزی۔)
پیشے کے لحاظ سے تو وہ وکیل تھے مگر اللہ رب العزت نے اس فہم و فراست سے نوازا تھا کہ جس نے انتہائی شاطر و عیار دشمنوں اور حاسدین کے بھی حوصلے پست کر دئیے ۔ جہاں وہ اور بیش بہا صفات کا منبع تھے وہیں “خودداری” ان کے نزدیک ایک اہم ترین وصف تھا۔1935 ء میں جب ایک ایکٹ کے ذریعے ملک کو فیڈریشن کی پیشکش کی گئی تو اس وقت ہندوستانی لیڈروں میں قائد اعظم ہی ایک ایسے لیڈر تھے جنہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا تھا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اسلام سے نہ صرف یہ کہ عشق تھا بلکہ وہ اس کے اصولوں کو دل و جان سے عزیز رکھتے تھے ۔
تحریکِ پاکستان کے آخری مرحلے میں قائداعظم نے مسلم عوام سے چاندی کی گولیوں کی اپیل کی، اِس پر عام مسلمان مردوں ہی نے نہیں عورتوں نے بھی لبیک کہا اور اپنا زیور تک لیگ فنڈ میں دینا شروع کر دیا، لیکن قائد اعظم نے اِس چندے کو قبول نہیں کیا، ایک روز بیگم شائستہ اکرام اللہ نے قائد اعظم سے پوچھا، سر یہ مسلمان خانہ دار عورتیں اتنے شوق سے اپنے ہاتھوں کے کنگن اور بالیاں اتار اتار کر مسلم لیگ کو دیتی ہیں اور آپ انہیں قبول نہیں کرتے، واپس کر دیتے ہیں، عجیب سا لگتا ہے، کیا یہ ایک قابل قدر جذبے کی توہین نہیں ہے، قائد اعظم نے کہا نہیں یہ بات نہیں، کوئی اورلیڈر ہو تو شاید اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھے، لیکن میں سیاست میں جذباتیت کو پسند نہیں کرتا، اِن خواتین کو چاہیے کہ وہ زیورات کا عطیہ کرنے سے پہلے اپنے اپنے شوہروں سے پوچھیں، اْن سے اجازت لیں اور پھر دیں۔‘‘
برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کی منزل سے روشناس کرنے والے قائد کا خدا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دین و مذہب پر کامل یقین تھا اور وہ پختہ اصولوں کے مالک تھے، اسی وجہ سے جناب مجید نظامی نے کہا تھا کہ: ’’اْن کی شخصیت کا خمیر سنہرے اصولوں کی روشن مٹی سے اٹھا تھا اور اْن کی پوری زندگی ایک زندہ کرامت تھی۔‘‘
قائداعظم کے معالج ٹی بی اسپیشلسٹ ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کے لئے ہم اْن کے پاس بیٹھے تھے،میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں، لیکن ہم نے اْن کو بات چیت سے منع کر رکھا تھا، اس لئے الفاظ لبوں پر آکر رک جاتے تھے، اِسی ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کے لئے ہم نے خود انہیں بولنے کی دعوت دی، تو وہ بولے، ’’تم جانتے ہو،جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے، یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اِسے کبھی نہیں کر سکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا، اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اِسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے ۔ ‘‘
خشیتِ خداوندی قائد اعظم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ مولانا حسرت موہانی بیان کرتے ہیں کہ’’ایک روز میں جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم کو اطلاع کرنے کو کہا، ملازم نے کہا اِس وقت ہم کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے، آپ تشریف رکھیں، تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گے، چونکہ مجھے ضروری کام تھا، اس لئے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرے میں چلاگیا، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پھر تیسرے کمرے میں پہنچا تو برابر والے کمرے سے مجھے کسی کے بلک بلک کر رونے اور کچھ کہنے کی آواز آئی، یہ جناح صاحب کی آواز تھی، میں گھبراگیا اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قائد اعظم سجدے میں پڑے ہیں اور بہت ہی بے قراری کے ساتھ دعا مانگ رہے ہیں، میں دبے پاؤں وہیں سے واپس آگیااور اب تو بھائی جب جاتا ہوں اور ملازم کہتا ہے کہ صاحب اندر ہیں تو یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سجدے میں پڑے دعا کررہے ہیں، میرے تصور میں ہر وقت وہی تصویر اور وہی آواز رہتی ہے۔‘‘
عاجزی، انکساری اور نظم و ضبط عظیم قائد کی شخصیت کا طرہ امتیاز تھا ۔ خواجہ اشرف احمد بیان کرتے ہیں کہ ’’3مارچ1941ء کو لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے آسٹریلیا مسجد میں نماز عصر ادا کرنا تھی، جب قائد تشریف لائے تو مرزا عبدالحمید تقریر کررہے تھے، مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، قائد موٹرکار سے برآمد ہوئے تو انہوں نے اچکن، چوڑی دار پاجامہ اور بٹلر شوز پہن رکھے تھے، اْن کی آمد پر لوگوں میں ہلچل پیدا ہوئی، لیکن وہ فوراً سنبھل گئے کہ قائد اعظم نظم و ضبط کے انسان تھے، وہ مسجد کے بغلی دروازے میں داخل ہوئے، اگلی صف تک راستہ بن گیا،لیکن قائد نے یہ کہتے ہوئے اگلی صف میں جانے سے انکار کر دیا ’’میں آخر میں آیا ہوں اس لئے یہیں بیٹھوں گا۔‘‘ سیاست میں آگے جانے والا خانہ خدا میں سب سے پیچھے بیٹھا، نماز سے فارغ ہونے پر قائد نے جو کام فوراً کیا وہ یہ کہ اپنے جوتے اٹھا لئے، ہرکسی کی خواہش تھی کہ وہ قائد کے جوتے اْٹھانے کی سعادت حاصل کرے، لیکن ہرکسی کی حسرت ہی رہی، لوگ بعد میں اْن کے ہاتھ سے جوتے چھیننے کی کوشش ہی کرتے رہے، لیکن قائد کی گرفت آہنی تھی، وہ ہجوم میں اپنی ریشمی جرابوں سمیت کوئی تیس قدم بغیر جوتوں کے چلے اور اصرار اور کوشش کے باوجود کسی شخص کو اپنا جوتا نہیں پکڑایا۔
حکیم راحت نسیم نے روزنامہ نئی بات میں رقم کیا کہ!افسوس کہ قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد قائداعظم ہم سے رخصت ہو گئے اور اس کے بعد ہمیں ان جیسا قائد نہ مل سکا اور پاکستان بحرانوں کا شکار ہو گیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے خوب کہا کہ اورنگ زیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیا جس کے عزم و ہمت نے دس کروڑ افراد کی مایوسیوں کو کامرانیوں میں بدل دیا۔ پاکستان کے بعد متعدد مسلمان ممالک آزاد ہوئے اور غلامی کے سائے ختم ہو گئے۔
ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ محبتیں محض لفاظی سے پروان نہیں چڑھتی بلکہ محبتیں تو محبوب کی رضا میں رنگ جانے کا نام ہے ۔ عظیم قائد کے 141ویں یومِ ولادت پر آئیے ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم نے اپنے محبوب قائد سے اپنی محبت کا حق ادا کیا ہے؟ اور اگر نہیں تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا واپسی کے راستے کھلے ہیں کیونکہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آ جائے تو اسے ” بھولا ‘‘ نہیں کہتے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں