چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس

اکادمی ادبیات اطفال، بچوں کے مقبول ترین میگزین پھول، محکمہ بلدیات پنجاب اور لاہور الحمراء آرٹس کونسل کے زیر اہتمام بچوں کے ادب کے فروغ کے لئے چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس 2021 کا انعقاد الحمرا حال نمبر 2 میں کیا گیا. اس میں شرکت کرنا یہ میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے. کانفرنس کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور نعت رسول مقبول سے عمل میں آیا۔اس کانفرنس کی مکمل نظامت ماہنامہ پھول کے ایڈیٹر اور پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے صدر محترم شعیب مرزا صاحب نے سر انجام دی جبکہ اس ادبی کانفرنس کی صدارت معروف ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، شاعرہ اور سابق رکن قومی اسمبلی محترمہ بشریٰ رحمان کر رہی تھیں.

ویسے لاہور کی سرزمین ادب کے اعتبار سے کافی زرخیز ہے۔یہاں وقفہ وقفہ سے اردو ادب کے فروغ کے لئے مشاعروں، ادبی میلوں اور بک فیر کا انعقاد عمل میں آتا رہتا ہے.خوش کی بات یہ ہے کہ شعیب مرزا صاحب بچوں کے معیاری ادب کی تخلیق و فروغ کے لئے تسلسل کے ساتھ ہر سال قومی سطح پر کانفرنس کا اہتمام کر رہے ہیں.اور یہ چھٹی کانفرنس تھی جس کے تین سیشنز ہوئے جس میں ملک بھر سے بچوں کا معیاری ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں اور لکھاریوں نے اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا.

ایڈوائز ٹو چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار صاحب پنجاب کے خصوصی معاون اور ترجمان حسان خاور نے اپنے صدارتی خطاب میں شعبہ اردو اور صدرِ شعبہ ادب اطفال کی ادب اطفال کے حوالہ سے کارکردگی کی تعریف و توصیف کی،اور تمام مہمانوں خصوصاً دور دراز سے آئے ہوئے مہمانانِ خصوصی اور مقالہ نگاران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ

” اگر ہم اپنے بچوں کو ذہین بنانا چاہتے ہیں تو ان کو کہانی سنائی جائے اور اگر زیادہ ذہین بنانا چاہتے ہیں تو زیادہ کہانیاں سنائیں جائیں”عینک والے جن ڈرامہ کے پروڈیوسر محترم حفیظ طاہر صاحب اور ایک ماہر نفسیات صاحب نے اپنے کلیدی خطاب میں بچوں کے ادب کی اہمیت،ضرورت،افادیت اور عصری تقاضے پر تفصیلی روشنی ڈالی،انہوں نے کلیدی خطاب میں فرمایا کہ بچوں کا ادب تحریر کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے،اس کے لئے بچوں کی عمر اور ان کی نفسیات سے آگاہ ہونا بے حد ضروری ہے،جس طرح ہم بچوں سے باتیں کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوتے ہیں،تاکہ ان سے آنکھیں ملا سکیں اور اپنی بات کو سمجھا سکیں،اسی طرح زبان و بیان کو ان کی سطح پر لانا ہوتا ہے، ورنہ ترسیل کا عمل مکمّل نہیں ہو پائے گا.

محترمہ ڈاکٹر فضیلت بانو صاحبہ نے عصرِ حاضر میں بچوں کے ادب کے حوالہ سے کہا کہ فوڈ اسٹریٹ کی طرح ہمیں چاہیے کہ بک اسٹریٹ بھی قائم کی جائیں انہوں نےمزید کہا کہ ہم نے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون تھما دیاہےاور تعلیم و تربیت سے بے فکر ہو گئے ہیں،آج بچے سب کچھ موبائل اور ٹی وی سے ہی سیکھ رہے ہیں،اور ادب و ثقافت اور سماج و معاشرت سے کٹ گئے ہیں،وہ صرف میکانکی زندگی جینا جانتے ہیں، ایسے میں تہذیبی و ثقافتی اقدار پامال ہو رہے ہیں،اور ہم ایک عظیم نقصان سے دو چار ہو رہے ہیں،آج کے تشکیک وانتشار کے دور میں بچوں کی نصابی تعلیم کے علاوہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔اب ان کے ہاتھوں سے موبائل یا ٹکنالوجی واپس لینا کارِ عبث ہے،بلکہ اس ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان کی ذہنی،جسمانی،روحانی اور جذباتی سطح پر تربیت کرنا بے حد ضروری ہے،مختلف ویب سائٹس پر بچوں کے ادب کو اپ لوڈ کرنا چاہئے،دل چسپ آڈیو اور ویڈیو کلپس تیّار کئے جائیں،

انہوں نے اپنے کلیدی خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج بچوں کے ادیب و شعراء پر لازم ہے کہ وہ موجودہ دور کے بچوں کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھیں،ان میں سائنٹفک اپروچ پیدا کرنے کی کوشش کریں،اپنی تحریروں کے ذریعہ اوہام پرستی،نسلی بھید بھاؤ،جنسی عدمِ مساوات اور سماج ومعاشرے کی مختلف امراض کا خاتمہ کرنے کی تلقین کریں،آپس میں بھائی چارگی،امدادِباہمی اور محبّت و الفت کو پیدا کرنے کی کوشش کریں،حقیقی موضوعات پر پوری صداقت کے ساتھ مواد تیّار کریں۔آج کا بچہ بہت باشعور ہو چکا ہے،سوال کرنا جانتا ہے،ہر چیز کی وضاحت طلب کرتا ہے،اپنی تحریروں میں بچوں کی موجودہ صلاحیتوں کو سامنے رکھیں،تبھی وہ آپ کی طرف متوجّہ ہو گا،ورنہ آپ کی تحریریں آپ کا منھ چڑاتی رہیں گی،اپنی تحریروں کے ذریعہ ان میں حوصلہ اور شجاعت کے جذبات پروان چڑھائیں،تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ملک و قوم کا سرمایہ ثابت ہو سکیں،گھروں اور خاندانوں میں چلڈرن سرکل کا احیا کریں،تاکہ اجتماعی طور پر بھی ان کی تربیت ہوسکے۔

ظہرانہ کے وقفہ کے بعد یک روزہ کانفرنس میں آخری خطاب معروف ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، شاعرہ اور سابق رکن قومی اسمبلی محترمہ بشریٰ رحمان نے اپنے خطبۂ اختتامیہ میں معزّز مہمانوں کا استقبال و خیر مقدم کرنے کے بعد کہا کہ یہ شعبہ اردو اور اہلِ ادب کے لئے مسرّت اور سعادت کی بات ہے کہ محترم شعیب مرزا صاحب ہر سال تسلسل کے ساتھ قومی سطح پر اس کانفرنس کو سجاتے ہیں اس دفعہ یہ چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس ہے الحمد للہ میں ہر کانفرنس میں شرکت کرتی ہوں اس دفعہ شدید سردی کے باوجود بھی شعیب مرزا صاحب کے اصرار اور محبت کی وجہ سے شریک ہونا پڑا. ہمارا اور ہمارے فکر مند احباب کا ارادہ ہے کہ لاہور کے نونہال طلبہ و طالبات کی علمی،ادبی،تہذیبی وثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے،یہاں نوخیز نسل کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ مستقبل میں اچھے قلم کار،ادیب،شاعر،صحافی،مصنّف،سائنس داں،ماہرِ تعلیم،ماہرِ قانون، ماہرِطب،فرض شناس سیاسی و سماجی قائد،اچھے انسان اور اچھے شہری بن کر نہ صرف بلکہ پورے ملک و قوم کا نام روشن کریں؛ کیونکہ ملک و ملت کی ترقّی کا معیار بچوں کی نشو ونمااور پنپتے دماغ کا تحفّظ یا ان کے حقوق کا تحفّظ ہے،کیوں کہ آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اقتصادی ترقی سماجی ترقی کی ضامن نہیں ہے،آپ اچھی طرح جان لیجئے کہ ادبِ اطفال ہی بچوں کی ذہن ساز ی کا بہترین ذریعہ اور ان کے دماغ کے تحفظ کا نہایت مؤثر ہتھیارہے۔ میں ہر دفعہ ارادہ کرتی ہوں اور اس دفعہ بھی شعیب مرزا سے وعدہ کرتی ہوں کہ ایک کتاب بچوں کے ادب پر ضرور لکھوں گی اور ہر لکھاری کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ادب کے حوالے سے ایک کتاب ضرور لکھیں. انہوں نے اپنے خصوصی خطاب میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تربیت سازی پرزور دیا،انہوں نے تمام آنے والے لکھاریوں کو بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کی ترغیب دی.

2021 کے تمام مصنفین اور درجنوں ادیبوں کو ان کی محنت، جستجو اور عمدہ پیش کشی پر ” پروفیسر دلشاد کلانچوی” اور اکادمی ادبیات اطفال ایوارڈز سمیت دیگر کئی قسم کے بیش قیمت ایوارڈز بھی دئیے گئے اور نقد رقم سے نوازا گیا ۔ اور انھیں مبارک باد بھی دی گئی ۔ اس کے علاوہ اکادمی ادبیات اطفال کی جانب سے تمام ادیبوں کو ان کی خدمات سراہتے ہوئے محترمہ بشریٰ رحمان کے ہاتھوں ایوارڈز اور اسناد یش کی گئیں. اور اس طرح شعیب مرزا صاحب کی یہ محبتوں والی پرخلوص یک روزہ چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی.اللہ تعالیٰ بھائی شعیب مرزا صاحب کو ہر قسم کے شرور و فتنوں،آفات و مصیبتوں سے محفوظ رکھے۔اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ اس چمن میں ایسے پھول کِھلیں کہ جن کی خوشبوؤں سے فضا معطر ہو جائے۔

حصہ