پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب جسے عام آدمی اور پاکستان کے سیاسی کارکنان پروفیسر غفورکے نام سے جانتے ہیں،پاکستانی سیاست میں کردار اور پاکیزہ زندگی کا ایک مثالی شخصیت و نمونہ تقلید گردانتے جاتے ہیں اگرچہ وہ عمر بھر جماعت اسلامی سے وابستہ رہے مگر معاشرے میں وسیع تعلقات ان کا خاصہ تھا۔
پروفیسر غفور صاحب نے ایک مجلس میں فرمایا کہ میں نے دو کام تنظیموں اور جماعتوں کے فکر و نظر اور وابستگی سے بالاتر کرنے کا اصول پیش نظر رکھا ہے۔ جب علاج و معالجہ کے سلسلے میں کوئی رابطہ کرتے ہیں تو میں نے کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا ہے کہ وہ کس جماعت اور کس مسلک،نسل و مزہب سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے طالب علموں سے معاونت و راہنمائی کے سلسلے میں ان سے زبان و نسل نہیں پوچھا جاتا ہے، ہمیں بلاشبہ ناز رہتا ہے کہ اس طرح کے وسیع النظر شخصیات کے ساتھ طالب علمی اور سیاسی زندگی میں بھرپور تعلق رکھنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔
پروفیسر غفور صاحب کراچی سے جماعت اسلامی کے مرکزی کردار اور منتخب نمائندے رہے ہیں ،اگرچہ وہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر نہ بنے مگر ایک جمہوری پارٹی کے تشکیل اور روایات کی پاسداری میں ان کا بنیادی کردار رہا وہ بانی جماعت اسلامی و فکری قائد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب سے بے پناہ متاثر رہے، پوری زندگی ان کے فلسفہ اسلام کی تشریح فرمائی اور منظم و مربوط سیاسی زندگی گزاری وہ جماعت اسلامی کے دوسرے امیر مرحوم میاں طفیل محمد صاحب کے دور میں بھی مختلف مناصب پر فائز رہے۔ اگرچہ ان کا میاں صاحب کی پالیسی اور ضیائی آمریت پر شدید تحفظات تھے وہ بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی پالیسیوں کے سخت خلاف و ناقد رہے مگر وہ ایک سیاسی لیڈر کے طور پر بھٹو صاحب کا احترام کرتے تھے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی تحریکوں میں سرگرم اور فعال کردار ادا کرنے کے باعث وہ سوسائٹی اور سیاسی برادری میں انتہائی شاندار اور معتبر مقام رکھتے تھے۔
“یہاں اختصار سے صرف تین بنیادی نوعیت کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں ورنہ ان کی زندگی کھلے کتاب اور سیاسی کارکنان کے سیکھنے کے لئے بھرپور توانائی و دانش مندی کا ذریعہ ہے”
وہ 2002 کے آغاز میں فروری کے مہینے میں سردی کے شدید موسم میں کوئٹہ تشریف لائے تھے تو خصوصی طور پر اپنے سیاسی دوست اور پارلیمنٹ و جیل میں ایک ساتھ رہنے والے نواب خیر بخش مری صاحب سے ملنے کوئٹہ میں واقع ھدہ ڈسٹرکٹ جیل تشریف لے گئے وہ تاریخی اور سیاسی ملاقات کا نقشہ ابھی تک تصور اور ذہن میں تازہ ہے نواب خیر بخش مری صاحب بھرپور علمی و فکری شخصیت کے مالک تھے۔ میری ان سے جیل کے بعد کراچی میں تفصیلی ملاقاتیں رہیں ہیں اس پر کبھی قلم اٹھایا جاسکتا ہے،نواب مری صاحب سے ان کی دوستی اور تعلقات مثالی رہے اگرچہ موقف اور فکر و نظر میں بے پناہ فاصلے موجود تھے۔
دوسرے نادر واقعہ اور اعلیٰ ظرفی کے حامل وسیع و بھرپور علمی خدمت کی مثال پروفیسر غفور صاحب کے سربراہی میں ایک تفصیلی اور تاریخی ملاقات وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں مولانا فضل الرحمان صاحب سے رہی جب اکرم درانی صاحب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ تھے اور جماعت اسلامی کے مرکزی سیاسی کمیٹی کا اعلیٰ سطحی اجلاس پشاور میں سیاسی حکمت عملی طے کرنے کے لئے پروفیسر غفور صاحب کی سربراہی میں منعقد ہوا،سیاسی کمیٹی کے غفور صاحب صدر اور جناب لیاقت بلوچ صاحب سیکرٹری تھے جس کے اختتام پر جناب درانی صاحب نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں سیاسی کمیٹی کے لئے عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا اور جناب مولانا فضل الرحمن صاحب خصوصی طور پر شرکت و تبادلہ خیال کے لئے تشریف لائے تھے مجھے وہ گفتگو اور بھرپور مجلس کے نکات کے ساتھ مولانا فضل الرحمن صاحب کے پروفیسر غفور صاحب کی خود خدمت کا نرالا انداز حافظے میں محفوظ ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب خدمت کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ پروفیسر غفور صاحب مرحوم مفتی محمود صاحب کے دوست اور سیاسی رفیق رہے ہیں، پروفیسر غفور صاحب 73 ء کے آئین کی تیاری و تشکیل اور ختم نبوت ورسالت کے معاملے میں بہت بھرپور اور بنیادی نوعیت کا کردار رہا ہے۔
یہ شائد نوجوان نسل اور خالص مادی فوائد سمیٹنے والے کارکنان اور راہنماؤں کے لئے تعجب خیز بات ہو کہ سیاست میں روایات اور اقدار کے ساتھ دوستی اور روابط کی پاسداری ہمارے معاشرے میں کبھی کس بلند سطح پر تھی آج جب سینٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے پارٹی سے تعلق منقطع کرنے اور کروڑوں روپے کی بندر بانٹ کی جاتی ہیں تب اسی سینٹ کے لئے 2002ء کے قومی انتخابات کے بعد سینیٹ الیکشن میں چوہدری شجاعت حسین صاحب نے پروفیسر غفور صاحب کو اپنے والد محترم کے ساتھ دوستی و سیاسی رفاقت کے باعث اسلام آباد سے اپنے پارٹی یعنی مسلم لیگ ق کی طرف سے سینٹر منتخب کرایا اور مرحوم پروفیسر غفور احمد صاحب اپنے پورے دورانیہ میں ایم ایم اے اور جماعت اسلامی کے سیاسی پالیسیوں اور اقدامات کی سینٹ میں دفاع و حمایت کرتے رہے۔
یہ پروفیسر غفور صاحب کا وہ بلند مقام و منزلت ہے جس کے بارے میں آج کا سیاسی کارکنان سوچ بھی نہیں سکتے ہیں پروفیسر غفور صاحب آج پاکستانی سوسائٹی کو معاشرتی اور سیاسی و سماجی افراتفری میں چھوڑ کر مالک ارض و سماء کے پاس پہنچے ہیں مگر 1973ء کی آئین کے تشکیل میں ان کا بنیادی کردار تھا آج جب نصف صدی کے بعد اسی آئین کے فریم ورک میں حالات اور سماجی و تہذیبی اور ثقافتی و فکری تبدیلیوں کے تناظر میں ایک نئے عمرانی و سماجی معاہدے کی تشکیل و تکمیل پر قومی مکالمے کی ضرورت ہے تو پروفیسر غفور احمد مرحوم جیسے وسیع النظر اور علمی و سائنسی فکر و دانش سے مالا مال سیاستدانوں کی کمی بہت شدت سے محسوس کی جاتی ہیں ابھی حال ہی میں پاکستان کے نامور اور علم و دانش میں انتہائی شاندار اور معتبر مقام پر فائز علمی و فکری سیاستدان جناب سردار شیر باز مزاری صاحب رخصت ہوگئے ہیں۔
میر غوث بخش بزنجو اور ان کے خوبصورت کردار صاحب زادے جناب میر حاصل بزنجو،جناب قائد حزب اختلاف محترم خان عبد الولی خان،خان شھید عبدالصمد خان اچکزئی صاحب اور سید منور حسن و جناب قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد واقعتاً ہمارے معاشرے اور سیاست میں روایات اور اقدار کی پاسداری اور خوبصورت کردار ادا کرنے کے لئے نئے افراد اور شخصیات کی تعمیر و تلاش کی ضرورت محسوس کی جاتی ہیں۔
بقول شاعر
چراغ بجھتے چلے
جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
رب العالمین آسانیاں پیدا فرمائے اور ہمارے معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں خوبصورت شخصیتوں اور پاکیزہ افکار کی تازہ لہر پیدا کرنے کی سعی و سبیل پیدا کرنے کی کوشش و کاوش کی ضرورت ہے۔