ماہ دسمبر کی 25 تاریخ کو ہم بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کا دن بہت ہی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ سرکاری سطح پر بڑی بڑی تقریبات کیساتھ ساتھ وطن عزیز کے ہر شہر ہر گاؤں میں مختلف سیاسی، سماجی ،غیر سرکاری تنظیموں اور ٹی وی چینلز کی جانب سے سالگرہ کے دن کی مناسبت سے رنگارنگ پروگرامزکا انعقاد کیا جاتا ہے۔
سرکاری و نجی عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ صدر، وزیراعظم سیاسی قائدین کے خصوصی بیانات میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ اخبارات میں کلر ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں۔ سالگرہ کے کیک کاٹے جاتے ہیں، قائداعظم کی شان میں نظمیں پڑھی جاتی ہیں اور خوب تقاریر کی جاتی ہیں جن میں انکے فرمودات، جدوجہد آزادی کے متعلق انکی کاوشوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اور رات گئے تک یہ تقریبات اپنے جوبن پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوجاتی ہیں۔ 25 دسمبر کا دن جیسے ہی ختم ہوتا ہے ہم اپنی روٹین میں واپس آجاتے ہیں۔ اور پھر اگلے سال کے 25 دسمبر تک قائداعظم کے فرمودات کو پس پشت ڈال کر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔ ریاست پاکستان اک سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں دنیا کے نقشے پر 1947 پر منظر عام پر آتی ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی۔ جہاں پر ہم ریاست پاکستان کی ترقی و کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہیں وہیں پر پاکستان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر آنکھیں بندکرلینا بھی قائداعظم کے پاکستان کیساتھ ناانصافی ہوگی۔
اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے انگریز سے آزادی تو حاصل کرلی مگر انگریز کی زبان، انگریز کے قوانین سے جان نہ چھڑا سکے۔ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی مگر آج بھی ہمارے دفاتر اور عدالتوں میں انگریزی زبان ہی میں خط وکتاب اور فیصلے لکھے جاتے ہیں ۔آ ج بھی ہماری عدالتوں میں انگریز کے بنائے ہوئے قوانین (ماسوائے چند ترامیم )کے تحت انصاف مہیا کیا جاتا ہے۔ اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ 1947 سے لیکر 1956 تک ہم ملک کا آئین نہ بناسکے۔ 1956 تک دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان کے حکومتی معاملات Government of India Act 1935 کے تحت چلائے گئے۔ 1956 میں بننے والے پہلے آئین کی حفاظت بھی نہ کرسکے اور ٹھیک دو سال بعد 1958 میں ملکی آئین توڑ دیا گیا۔ اور 1958سے 1962 تک مملکت پاکستان کے معاملات بغیر کسی آئین کے چلائے گئے۔ ہم نے اقتدار کی ہوس میں 1971 میں مملکت کو دو لخت کروادیا مگر اقتدار کو چھوڑنا قبول نہ کیا۔ اے قائداعظم تو نے ہمیں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دی مگر ہم اتنی بڑی اسلامی ریاست کو سنبھال نہ سکے اور ٹھیک 24 سال بعد 1971میں مملکت دو لخت کروابیٹھے۔ کاش ہم اپنے بنگالی بھائیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے (یعنی اقتدار انکے حوالے کردیتے) بجائے اسکے کہ اپنے ازلی دشمن بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالتے۔ 1977 میں باقی ماندہ ملک پاکستان (سابقہ مغربی پاکستان) میں اک مرتبہ پھر آئین توڑا گیااور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو 1988 تک ایسے ہی چلاتے رہے۔
ہم نے 1999 میں اک مرتبہ پھر آئین پاکستان کو توڑا اور 2008 تک مملکت کے معاملات چلاتے رہے۔ اے قائداعظم آپکے پاکستان میں منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی جاتی ہے، کسی کو ملک بدر تو کسی وزیراعظم کو غدار قرار دیا جاتا ہے۔اے قائداعظم آج تک ہم آپکی ریاست کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست نہ بنا سکے، اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں ہم مسلمان کم مگر شیعہ سنی وہابی دیوبندی بریلوی زیادہ ہیں۔اپنی شناخت پاکستانی کی بجائے پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون، مہاجر کے طور پرکرواتے ہیں۔ اے قائداعظم آپکے پاکستان میں غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے اور دولت چند خاندانوں تک محدود ہورہی ہے۔ اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ آج بھی مظلوم کوحصول انصاف کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں، انصاف کے حصول کے لئے لوگوں کی نسلوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے مگر انصاف ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔ اے قائداعظم آپکے پاکستان میں آج بھی عوام الناس کو سرکاری دفاتر میں اپنے کام نکلوانے کے لئے سرعام رشوت دینی پڑتی ہے۔ افسوس! پاکستان کو لوٹنے والوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ ہم آج تک کشمیر کو انڈیا کے قبضہ سے نہ چھڑا سکے۔ اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ ریاست پاکستان اپنے تمام شہریوں کو مفت علاج اور مفت انصاف کی سہولتیں دینے میں ناکام رہی۔
پاکستان میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ اللہ کسی دشمن کو بھی ہسپتال اور کچہری سے بچائے کیونکہ ان دونوں جگہوں پر صحت اور انصاف کے حصول کے لئے عوام الناس کا سرمایہ انکی جائیدادیں تک بک جاتی ہیں۔ اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ ریاست پاکستان اپنے تمام شہریوں کو مفت تعلیم دینے میں ناکام رہی۔ اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ ہم پاکستان کے سبز پاسپورٹ کی قدر نہ کرواسکے، آج پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں انتہائی نچلے درجہ میں آتا ہے۔دنیا ہمیں شدت پسند تصور کرتی ہے۔ ہم نے انگریز سے آزادی تو حاصل کرلی مگر معاشی طور پر آج بھی انگریز کے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔کاش ہمارے ارباب اختیار، ہماری سیاسی جماعتیں اس بات کو سمجھ سکیں کہ پاکستان کے حصول کے مقاصد کیا تھے، کاش ہم سب سمجھ سکیں کہ ریاست کی اصل مضبوطی ریاست کے شہریوں کی مضبوطی کے ساتھ منسلک ہے۔
کاش ہم آئین پاکستان کی صحیح معنوں میں پیروی کرنے والے بن جائیں ۔کاش پاکستان کا ہر شہری اور ادارہ آئین پاکستان کی پیروی کرنا شروع کردے۔ یقین مانیں کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز انکے عوام ،سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے ملکی آئین کی پاسداری کی بدولت ہے۔کاش ہم قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کو بابائے قوم کی سوچ کے مطابق صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست بناسکیں تو پھر یقینا ہمیں قائداعظم سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہ رہے گی۔اللہ کریم پاکستان اور پاکستانیوں کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین۔