سعودی عرب میں لوگ ایک دوسرے کو “محمد “کہہ کر پکارتے ہیں خا ص طور پر اجنبی حضرات جنکا اصلی نام وہ نہیں جانتے “محمد”کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور سب سمجھتے ہیں کہ کوئی مجھ سے مخاطب ہے ۔ اگرچہ اسکا نام نہیں جانتے ! مگر مجھے حیرت ہوئی کہ “محمد ” کہہ کر پکا رے جانے والے کا کیا کردار ہوگا ؟۔
محمد تو رسول اللہ ﷺ ہیں اور ان کا اسوئہ ہی ہمارے لئے نمونہ ہے وہ بھی بہترین نمونہ ! بعض لوگوں کا تو نام ہی محمد سے شروع ہوتا ہے جیسے کہ محمد رفیع اللہ ، محمد ہدایت اللہ ، محمد سمیع اللہ وغیرہ وغیرہ تو عموماً لوگ انہیں اگلے نام سے پکارتے ہیں یا صرف محمد سمیع کے بجائے سمیع کہتے ہیں ۔ نیک اعمال صالح اعمال تو اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کے بغیر کوئی عملِ خیر ہو ہی نہیں سکتا اور نہ وہ کسی اجر کا ہی مستحق ہوسکتا ہے ۔
پھر نجات کیسے ہوگی؟ اور ظاہر ہے وہی عمل قواعد شرعیہ کے مطابق بھی ہونگے پھر اس طرح سے تو وہ تمام لوگ ایمان والے لوگ جب ان عملِ صالح کو شعوری طور پر تا حیات کرتے رہینگے تو ان ہی کے ایمان اور عملِ صالح سے تمام پچھلے گناہ جھڑ جائیں گے ۔ تو گویا محمد ﷺ کا اسمِ گرامی پر قرآن کی ایک سورۃ “محمد”کا نام بھی ہے کیونکہ اس وقت مسلمان اہلِ عرب معاشی طور پر اتنے کمزور ہوگئے کہ آپؐ پر سورۃ نازل ہوئی کہ اہل ایمان کو جنگ کیلئے تیار کرنا ضروری ہے تو اس طرح اس سورۃ کو سورئہ قتال بھی کہا جاتا ہے ۔ دو گروہوں کے درمیان ایسی پوزیشن تھی کہ یا تو ایمان والا گروہ ، حق کو جان گیا، مان گیا جو آپؐ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا جبکہ دوسرا گروہ سخت مخالفت اور اور انکارِ حق بھی حد سے بڑھا جا رہا تھا تو دوسرے گروہ کی تما م سعی بے کار جبکہ پہلے گروہ کے حالات سدھر گئے ، درست کردیئے گئے ۔ انہیں اللہ کی مدد اور راہنمائی کا یقین دلا کر بہترین قربانیوں پر بہترین اجر کی امید دلائی گئی گویا راہِ حق کی کوششیں کبھی رائیگاں نہ ہونگی وہ دنیا سے لیکر آخرت تک وہ ان کا اچھا پھل پائیں گے ۔
ظاہر ہے اہلِ مکہ نے آپ ؐ کو اتنا تنگ کیا اور وہاں سے نکال کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ انہیں بڑی کامیابی ملے گی مگر انہیں اس کام سے تباہی و بربادی اور بڑی ناکامی ملی ۔ اتنے مراحل سے تکالیف سے گزر کر صبر و استقامت کی مثال بن کر آپؐ نے ہر ہر میدان میں کفر کو شکست دیتے ہوئے اپنے اعلیٰ کردار کا نمونہ پیش کیا اور یہ سبق دے دیا کہ کردار کی سچائی ، حق کی خا طر صرف اللہ کیلئے شریعت پر چلنے والے ہی کامیاب ہونگے اور پھر انکی ایمانی قوت انہیں دنیا میں بھی نڈر اور با عزت سرخرور رکھے گی ۔ آج کے مسلمان جو مغربی دنیا اور میڈیا سے اتنے متاثر ہیں کہ وہ ہر وقت آسا نی اور سست روی کا شکار ہوتے جارہے ہیں کہ سب کو نظر آرہا ہے ، بندہ خود بھی فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ حق کے ساتھ ہے یا باطل کے ساتھ ؟ عمل ڈیل ڈول اور رویہ دن بھر کے معاملات صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کے اسوئہ پر چل رہے ہیں یا کہ دنیا کی دوڑ میں لگے ہیں؟
سورئہ محمد ؐ میں جو سبق دیا گیا ہے اس کا جائزہ لیتے ہوئے اگر ہم دیکھیں گے کہ قلت تعداد اور بے سرو سامانی اور کفار کی کثرت اور انکے سروسامانی کی فراوانی دیکھ کر مسلمان ہمت نہ ہاریں اور نہ ہی انکے آگے صلح کی پیش کش کرکے کمزوری کا ظہار کریں ورنہ ان کی جراتیں اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں اور زیادہ بڑھ جائیں گی بلکہ اللہ کے بھروسے پر اٹھیں اور کفر کے پہاڑ سے ٹکرا جائیں اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہی وہی غالب رہیں گے اور یہ پہاڑ ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گا ۔ گویا مسلمانوں کوانفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی تھی ۔ عرب میں اسلام کو زندہ رکھنے کیلئے اس دعوت کو مسلمان چیلنج سمجھ کر قبول کریں یعنی مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے دین کو کفر کے غلبے سے بچانے کیلئے جانیں تک لڑائیں ۔
جنگی تیاری کیلئے اپنے مالی وسائل کو پوری امکانی حد تک کھپائیں ورنہ وہ خود کو خطرے میں ڈالیں گے کیونکہ سب بندے اللہ کی مدد کے محتاج ہیں ۔ اللہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ خالق، مالک، رازق ہے ۔ اللہ کے دین کی خاطر قربانیاں دینے سے اگر ایک گروہ جی چرائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ہٹا کر دوسرا گروہ اس کی جگہ لا کھڑا کرے گا ۔ گویا آپؐ کی اس راہنمائی میں رہتی دنیا تک کے مسلمان آگاہ رہیں اور ہر وقت ہر جانب سے انکارِ حق کرنے والوں کے خلاف ڈٹ جائیں اور اپنے ایمان اور عملِ صالح سے دین کو غالب کرنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ آج بھی ہم اسی طرح پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ اب ہمارا ایمان کمزور پڑتا جا رہا ہے ہم صرف نام کے مسلمان ہیں کام کے نہیں ، کردار کے نہیں !!! عالمی طاقتیں اور بے حیائیاں ، بدکرداریاں ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑی جا رہی ہیں اور ہم ہیں کہ “غافل”تو کیا آپ نے پڑھا نہیں ؟ جو آپؐ کا اتباع نہیں کرے گا ۔
اطاعت رسول کا متمنی نہ ہوگا تو ضرور زمانے کے ہاتھوں رسوا بھی ہوگا اور آخرت میں انجام کے اعتبار سے کفار کی طرح عذاب کا مستحق ہوگا ۔ آج بھی اگر ہم پلٹ آئیں ، کتاب ہدایت پر عمل پیرا ہوں ۔ عملی طو ر پر ، شعوری طور پر اپنے ایمان کو بڑھائے ۔ رسول کا اسوئہ اپنائیں تو ہمارے گرد لاچاری ، بے بسی اور مغلوبیت کے یہ سائے چھٹ جائیں ، اپنے مقصدِ حیات کو ہر دم وقت مثبت رکھیں تو مستحکم اور مسلسل عملِ صالح سے ہم اپنا وقار دونوں جہاں میں حاصل کرسکتے ہیں ۔ مسلمانوں بحیثیت قوم اپنا کھویا ہوا “وقار” احکام الٰہی پر عمل اور اسوئہ رسول کے اتباع سے ضرور حاصل کرسکیں گے ۔ ان شاء اللہ اپنی آخرت کی فکر ضرور رکھیں کہ آپؐ دن میں 72مرتبہ استغفار پڑھتے تو ہم ہزارہا برائیوں میں بھی احساسِ گناہ نہیں رکھتے اور یوں برائیوں میں جکڑے جارہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو پلٹ کر آنے والے پسند ہیں ۔ گویا کہ بقول شاعر:
آج بھی تو اگر اللہ کو راضی کرلیں
آج بھی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے
گویا کام ہمارا ہے کہ :
آج بھی حق کیلئے جان ادا کرے کوئی
وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئی