آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم طالب علموں اور اساتذہ کے ساتھ پیش آنے والے درد ناک ،افسوس ناک واقعہ کوسات برس بیت گئے، 16 دسمبر 2014 اور 1971پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے یہ دن جاتے دو بھیانک یادیں چھوڑ گیا ،ہماری نوجوان نسل کو سال1971کی 16دسمبر کو پیش آنے والے سانحہ کا تو شایداتنا علم نہ ہوگا لیکن تاریخ کے طالب علم اور وطن عزیز پاکستان کو قائم کرنے والی نسل کو یہ دن ہمیشہ دکھ دیتا آیا ہے، ہمسایہ ملک بھارت نے پاکستان کے ساتھ 1948اور1965کی جنگیں لڑیں لیکن پاکستان کو دولخت کرنے کے اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب نہ ہو سکا۔
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ مکتی باہنی تحریک جو بعد میں ایک تشّدد پسند گوریلہ فورس میں تبدیل ہوگئی تھی بھارت نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی سیاسی عسکری قیادت کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھانے میں مدد دی یہ ایک چھاپہ مار تنظیم تھی جس نے پاکستان کے مشرقی بازو کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اس تحریک کو بھارت کی مکمل آشیر باد حاصل تھی تحریک کے لوگوں نے اپنے ہم وطنوں اور بہاریوں کے قتل عام میں حصہ لیا اور دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں نہ صرف بنگالی بلکہ بھارتی افواج کے لوگ بھی اس میں شامل تھے جنہوں نے انہیں گوریلا جنگ کی ٹریننگ دی۔
قارئین کرام !مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کیلئے بھارت نے بی ایس ایف اور را کے ذریعے مکتی باہنی کو تربیت دی اور مالی وسائل فراہم کئے، 1971 سے لیکر اب تک پاکستان کیخلاف مسلسل پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے ،بھارت 1971ء سے اب تک اخبارات جرائد و رسائل، ٹی وی چینلز، ویب سائٹس پر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے مسلسل پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹا پراپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہے ،ایک رپورٹ میں سابق پاکستانی کرنل کے مطابق 1970ء میں ہونیوالے عام انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا لیکن بھارت نے اْس طرف اِس معاملہ میں کھلی مداخلت کی، اِسی کو بنیاد بناکر پاکستان پر حملہ کیا، پاکستان کیخلاف مکتی باہنی کی امداد اور انہیں بھارتی افواج، بی ایس ایف اور ’’را‘‘ کے ذریعے تربیت فراہم کی اور انکی امداد کیلئے بھارتی پارلیمنٹ سے قرار داد منظور کرائی۔
3دسمبر 1970ء کو ہی بھارت نے ان باغیوں کو تربیت فراہم کرنا شروع کر دی تھی جنہوں نے بعد ازاں مشرقی پاکستان میں سرکاری املاک پر حملے، قبضے اور پاکستانیوں کو بے رحمی سے قتل کیا۔کہا جاتا ہے کہ عوامی لیگ نے اْس سال یوم پاکستان 23 مارچ کو بطور یوم سیاہ منایا تھا، نومبر کا آخر ہفتہ تھا پاکستان اور ہندوستان کی افواج اپنے اپنے باڈرز پر پہنچ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے 3دسمبر 1971کو پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جنگ شروع ہوگئی پاکستانی فوج اور قوم جنگ کے آغاز سے ہی اپنے وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے کو تیار تھے کیونکہ 1965میں پاکستانی فوج اور قوم کا جذبہ دیکھ کر ہندوستانی قوم اور فوج کے پیر بھی لڑکھڑا رہے تھے لیکن بھارت نے اب کی بار ایک نئی چال ترتیب دے رکھی تھی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور جنگ شروع ہوئے ابھی 13دن گزرے تھے کہ16دسمبر1971کو سہ پہر رمنار لیس کورس کے مقام پر جنگ بندی کا اعلان ہوا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کو الگ ریاست تسلیم کیا گیا اور جنگ بندی کے بعدہزاروں پاکستانی فوجی جوانوں کو ہندوستانی قید میں جانا پڑا اور مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے اْبھر آیا،سانچ کے۔
قارئین کرام !16 دسمبر2014 کو بھی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، آرمی پبلک سکول میں آٹھویں نویں دسویں جماعت کے طالبعلم آڈیٹوریم میں جمع تھے، جہاں بچوں کو طبی امداد کی تربیت دی جا رہی تھی ، صبح دس بجے کے قریب سات دہشت گرد اسکول کے عقبی راستے سے داخل ہوئے اور اسکول میں گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، معصوم طالب علموں کو خون میں نہلا دیا،سانحہ میں اسکول کی پرنسپل، اساتذہ، طلبہ اور دیگر عملے سمیت 150 سے زائد افراد شہید ہوئے ،جبکہ 134طالب علم شہید ہوئے۔
پاک فوج کے جوانوں نے سفاک قاتلوں کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے قاتلوں کو ختم کر دیا ،خوفناک واقعہ کی خبر پل بھر میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیل گئی اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، تحریک انصاف کے چیئرمین موجودہ وزیر اعظم عمران خان، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت گورنرز، مولانا فضل الرحمان اور دیگر سیاسی قائدین پشاور پہنچے، او ر سانحہ کے متاثرین کے دکھ میں شریک ہونے کے ساتھ انکوائری کا آغاز کیا گیا ، واقعہ کے بعد جوڈیشل کمیشن سمیت نیشنل ایکشن پلان بھی تشکیل دیا گیا تھا،واقعے کے بعد پوری پاکستانی قوم دہشتگردوں کے خلاف یکجا ہوئی اور ملک میں موجود دہشتگردوں کے صفایا کا مطالبہ کیا گیا، حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے سر جوڑا اور نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا۔
آپریشن کے دوران شمالی وزیرستان سے دہشتگردوں کا صفایا کردیاگیا،سانحہ اے پی ایس کو 7 سال مکمل ہو گئے لیکن دل ہلا دینے والے واقعے میں شہید بچوں کے والدین آج بھی اپنے جگر گوشوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کے آنسو نہیں تھمتے، شہداء آرمی پبلک اسکول کی قربانیوں کے باعث ملک سے جہاں دہشتگردی کا خاتمہ ہوا وہیں علم دشمنوں کے عزائم خاک میں مل گئے،! ایک معتبر نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق10 نومبر2021کوسپریم کورٹ میں آرمی پبلک اسکول پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کی اور عدالت نے بدھ کو اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کیا ،وزیراعظم عمران خان نے عدالت میں پیش ہو کر کہا ہے کہ ’کوئی بھی مقدس گائے نہیں اور عدالتی حکم پر کسی بھی فرد کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔
آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کے لیے تشکیل پانے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو ’سکیورٹی کی ناکامی‘ قرار دیا تھا ،سماعت کے دوران عدالت نے وزیراعظم سے استفسار کیا کہ آپ نے کمیشن کی رپورٹ پر کیا کارروائی کی، جس پر وزیر اعظم نے جواب دیا کہ اس وقت ہماری حکومت نہیں تھی، ہماری صوبائی حکومت تھی جو صرف لواحقین کو معاوضہ دے سکتی تھی جو کہ خیبرپختونخوا نے دیا،عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو کمیشن رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں صرف نچلی سطح کے لوگوں کا ذکر ہے جبکہ بڑے لوگوں کا کہیں نام نہیں ہے ،عدالت نے وزیراعظم سے کہا کہ اب آپ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور آپ کو قومی سلامتی سے متعلق اقدامات کرنے سے کس نے روکا ہے؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمارے لیے کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے۔ اگر عدالت حکم دے تو ہم کسی کے خلاف بھی کارروائی یا مقدمہ درج کر سکتے ہیں۔‘
اس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آپ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جنھوں نے ان بچوں کو شہید کیا کیا ہم ان کے ساتھ مذاکرات کر کے شکست کی ایک اور دستاویز پر دستخط کرنے تو نہیں جا رہے؟‘ عمران خان نے کہا کہ اس معاملے کو افغانستان کے پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ 80 ہزار لوگ جو اس جنگ میں مارے گئے ان کے بارے میں بھی عدالت کوئی احکامات جاری کرے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سات برس قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ بھی عام کرنے کا حکم دیا تھا،یہ کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا اور اس نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک اسکول کی رپورٹ جولائی 2020 میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔
کمیشن کی جانب سے اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور شہید ہونے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے جن میں 101 عام شہری اور 31 سیکورٹی اہلکار اور افسران شامل تھے ،پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والا گروپ 27 ارکان پر مشتمل تھا جس کے نو ارکان مارے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر سزا دی گئی ہے ،میڈیا کی رپورٹ کے مطابق عدالت کی سماعت کے بعدشیخ رشید کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے چار ہفتے کا وقت دیا ہے، وزیراعظم نے تمام صورتحال پیش کی ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ چاہے اس میں وزیر داخلہ ہو، ہائر ایجنسی کے لوگ ہوں، جو بھی ذمہ دار ہوں، آئین کے تحت کارروائی ہو گی‘ جبکہ میڈیا رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں تسلیم کرتے ہیں لیکن اعلیٰ حکام کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔