کہاں گئے ایسے حکمران؟ 

یہ درہم ودینار کی دنیا
یہ نفسانفسی اور لوٹ مار کی دنیا،ہمیں نہیں چاہیے۔
اپنی زندگی میں صرف ان لمحوں کا انتظار ہے،جو ایک خواب کی مانند ذہن میں چپک سے گئے ہیں۔
یہ خواب جو تعبیروں کی راہ تک رہا ہے۔وہ لمحے جو رک سے گئے ہیں۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ دور آنے ہی والا ہے۔یوں وقت بھی گزر گیا،لمحے بھی ،عمر بھی!!
سوچتا ہوں کبھی ہماری زندگیوں میں بھی ایسے حکمران آئیں گے،جن کے قدموں کی آہٹ سننے کو کان بے قرار رہتے ہیں۔صدیاں بیت گئیں،پھر کوئیْ عمربن عبدالعزیز جیسا عادل نہ آیا۔گندمی رنگت ،خوب صورت چہرے والا ،نحیف جسم اور جھیل ایسی گہری آنکھوں والا۔ جسے ،حکمرانی کے بوجھ نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا،بال کھچڑی ہو چکے تھے اور کرتے سے پسلیاں جھانکتی تھیں۔صرف دو سال پانچ ماہ پندرہ دن حکومت کی ،دو روز بیمار رہ کرترانوے سال پانچ ماہ کی عمر میں وصال فرمایا۔ایسی حکومت کی کہ لوگ زکات لے کر نکلتے تھے کوئی لینے والا نہ تھا۔ مسلمانوں کے خلیفہ بنے تو اس دنیا کی رعنائیوں سے ایک دم منہ پھیر لیا۔ کچھ یاد رہا تو بس اتنا کہ وہ مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں تو کل محشر میں اللہ کے سامنے جواب دینا ہے۔ ان کی بیگم سے کسی نے پوچھا، عمر بن عبدالعزیز کا مرض الموت کیسے شروع ہوا؟بیگم نے آہ بھری اور کہا،’’ میرے خیال میں خوف آخرت اس مرض کی ابتدا تھی، انھیں خشیت الٰہی نے مار ڈالا۔ہائے کیا ہمارے حکمران کیا ان کی بیگمات؟۔
اپنی قبر کی جگہ وفات سے دس دن پہلے ہی دس دینار میں خریدی۔مرنے سے قبل وصیت کردی کہ صرف سوتی کپڑے کا کفن پہنایا جائے۔وفات کے وقت عمر بن عبدالعزیز نے کہا،’’اگر مجھے خلیفہ بنانے کا ذرا بھی اختیار ہوتا تو قاسم بن محمد بن ابوبکر کے علاوہ کسی کو نہ بناتا۔ریاح بن عبیدہ کہتے ہیں گورنری کے دور میں دس اشرفی کا جبہ کرخت معلوم ہوتا تھا ایک کرخت جبہ خلافت کے دور میں ایک اشرفی کا خرید کر پیش کیا گیا ہاتھ پھیر کر فرمایا۔۔۔ ’’کتنا ملائم اور نرم ہے ‘‘دل خوشبو اور لباس کا بے حد مشتاق تھا خلافت کا بار پڑتے ہی آخرت یاد آ گئی۔ دل آخرت کی جانب مائل ہوا فرمایا۔ ’’ اب میں آخرت کو دنیا کے مقابل برباد کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ یونس بن شیب کہتے ہیں خلافت سے پہلے جسم فربہ تھا ‘ توند نکلی ہوئی تھی ‘ خلیفہ بننے کے بعد اگر میں چاہتا تھا بغیر چھوئے ان کی پسلیاں گن سکتا تھا۔‘‘ اپنی عیش و عشرت کا سارا سامان ۳۳ ہزار دینار میں فروخت کر کے رقم غریبوں میں تقسیم کر دی۔عمر گزر گئی ‘ ذاتی حیثیت میں کوئی عمارت تعمیر نہ کرائی۔ فرماتے رسول اللہﷺ کی یہی سنت ہے۔ خلاف ملی تو اپنے رب سے عہد کیا۔
جب تک مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمے دار ہوں اینٹ پر اینٹ اور شہتیر پر شہتیر نہیں رکھوں گا۔‘‘ جس گھر میں آپ رہتے تھے اس میں بالا خانہ تھا جس کے زینے کی ایک اینٹ ہلتی تھی جس سے چڑھتے اترتے گر جانے کے خوف سے ان کے ملازم نے گارے سے اینٹ کو جوڑ دیا۔ بالا خانے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جب اینٹ کے ہلنے کی آواز نہ آئی تو ملازم کو پکارا ۔۔۔’’ یہ کیوں کیا ۔۔۔‘‘ ملازم نے وجہ بتائی ‘حکم دیا ‘
’’اکھیڑ دو اس اینٹ کو ‘ میں نے اپنے رب سے وعدہ کر رکھا ہے جب تک خلیفہ ہوں اینٹ پر اینٹ نہیں رکھوں گا۔‘‘
خلافت پر کیسے متمکن ہوئے؟یہ سراسر ان کی تمنا اور مرضی کے خلاف تھا۔ان کے پیش رو اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے ایک جمعے کوسبز ریشمی کپڑے پہنے،آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو بے اختیار بولا میں تو نوجوان بادشاہ ہوں۔مسجد گیا،جمعہ پڑھایا۔واپسی پربخار نے آن گھیرا۔ بیماری بڑھتی گئی۔رجا بن حیوۃکہتے ہیں ،’’ میں نے کہا: امیر المومنین ایک نیک آدمی کو اپنا جانشین مقرر کریں۔اس نے ایک دو دن انتظار کیا مجھے بلا کر پوچھا ، ” داؤد بن سلیمان کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟”میں نے کہا ”وہ قسطنطنیہ میں غائب ہے۔آپ نہیں جانتے ،زندہ ہے یا مردہ؟” سلیمان نے کہا،”تمھارے خیال میں کون ہونا چاہیے؟”میں نے کہا ،”امیر المومنین !ر ائے آپ ہی کی ہوگی۔میں تو چاہتا ہوں جو قابل ذکر ہیں ان کے بارے میں غور کروں۔” سلیمان نے کہا ،”عمر بن عبد العزیز کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے ؟”میں نے کہا ، ” میں بخداانھیں عالم اور اچھے مسلمان کی حیثیت سے جانتا ہوں۔ اس نے کہا،”تمھارا خیال صحیح ہے ،خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی وفات والے روزرجا بن حیوہ نے بنو امیہ کے افراد کو مسجد میں جمع کیا اورپھرسے خلیفہ سلیمان کے مقرر کردہ جا نشین کی بیعت لی۔ بیعت ہو چکی تو انھوں نے بتایا کہ خلیفہ کی وفات ہوچکی ہے اور عمر بن عبدالعزیز نامزد خلیفہ ہیں۔ عمر بن عبد العزیز نے سلیمان کا جناز ہ پڑھایا۔ تدفین سے فارغ ہوئے توگھوڑوں اور خچروں کا لاؤ لشکر انھیں لینے پہنچ گیا،بتایا گیا:”یہ خلیفہ کی سواریاں ہیں۔”عمر نے کہا:”میرا خچر ہی بہترین ہے ”اور اس پر سوارہوگئے۔خدام شاہی محل کی طرف روانہ ہوئے تو حکم دیا جومیرا گھر ہے میرے لیے کافی ہے۔ مسجدکے منبرپر چڑھے اور کہا : ”لوگو !اگرتم مجھے پسند نہیں کرتے ہو تو میں تمھارامیرنہیں بنتا۔”لوگوں نے کہا: ”ہم راضی ہیں۔”پھر کہا:”اے لوگو!جس نے میراساتھ دینا ہے ،پانچ باتوں کا خیال رکھ کر ساتھ دے ورنہ پاس نہ پھٹکے:
۔ہر اس شخص کی ضرورت ہم تک پہنچائے گا جو خود نہیں پہنچا سکتا۔
۔اپنی پوری قوت سے نیک کاموں میں میری مدد کرے گا۔
۔جس خیر کا پتا نہ چل سکا ہو، اس تک میری رہنمائی کرے گا۔
۔ ہمارے پاس رعایا کی چغلی نہ کھائے گا۔
۔جو اس کے مطلب کی بات نہ ہو، اس کے درپے نہ ہو گا۔
” خطاب کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ خوشامد ی کھسک گئے اللہ سے ڈرنے والے ادھر رہ گئے۔ نماز جمعہ کے بعد خلیفہ بنے ،عصر کی نماز تک ان کا حلیہ بدل چکا تھا۔اصلاح کا آغاز گھر سے کیا۔ دوسروں کی زمینیں اورمال متاع جو بھی اپنے پاس نظر آیا،خزانے کو لٹا دیا۔ ولید بن عبدالملک نے انگوٹھی کانگینہ عطیہ کیاتھا وہ بھی اتار کر خزانے میں جمع کرا دیا۔خلیفہ بنتے ہی اپنی ملکیت کا جائزہ لیا۔ غلام ،لباس ،خوشبوئیں اور سامان تعیش۔ سب فالتو اشیاء بیچ ڈالیں۔ان سے حاصل ہونے والے ۳۲ ہزار دینار اللہ کی راہ میں دے دیے۔بیت المال میں خلیفہ بننے تک جتنی غصب شدہ مال و متاع، ان کے اصل وارثوں کولوٹایا۔سب سے اچھی خوش بولگانے والے ،سب سے عمدہ لباس پہننے والے عمر جب خلیفہ بنے توسب سے سستا لباس پہنتے روکھی سوکھی کھاتے۔،خلافت نے موت کے سارے منظر آنکھوں کے سامنے کر دیے تھے۔ عمر بن عبدالعزیزنے جب وہ مدینہ(اور حجاز)کے گورنر تھے اپنے کپڑے خریدنے کے لیے حجاج بن صواف کو بھیجا۔ انھوں نے پانچ سو درہم کے کپڑے خریدے۔ پسند نہ آئے کھردرے سمجھ کرمسترد کر دیے۔ جب وہ خلیفہ بنے اکتالیس درہم کا ایک کھردرا لباس پسند کیا اور کہا:”سبحان اللہ!کیا نرم اور باریک کپڑا ہے۔” یونس بن ابو شبیب کہتے ہیں:” میں نے خلیفہ بننے سے پہلے عمر بن عبدالعز یز کوحرم مکی کا طواف کرتے دیکھا ،ان کے ازاربند کی گانٹھ ان کے پیٹ میں دھنسی ہوئی تھی۔خلیفہ بننے کے بعددیکھا ، حال تھا کہ بغیر چھوئے ان کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں۔ خلیفہ بننے کے بعد ان کومشورہ دیا گیاکہ ان کے کھانے کی نگرانی کی جائے،نماز پڑھتے وقت ایک پہرے دار کھڑا ہوجاتا کہ طاعون سے دور رکھا جائے۔چونکہ پہلے خلفاان امور کا دھیان رکھتے تھے۔عمر کا جواب تھا:”ان احتیاطوں کے باوجو د انجام تو موت ہی ہو گا ”۔عمر عوام کے مال و دولت کے محافظ بن گئے احتیاط کا یہ عالم تھا کہ سرکاری خزانے کے عطر کی خوش بو تک نہ سونگھتے۔ ایک آدمی نے آپ کو گالیاں دیں۔حکام نے اسے قید میں ڈال دیا اور آپ سے اس کے قتل کی اجازت طلب کی۔ عمربن عبدالعزیزنے جواب میں لکھا:” نبی صلیاللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی کو گالی دینے والے کو قتل نہ کیا جائے، تم اس آدمی کو گالی دیناچاہو تو دے لو اور چھوڑ دو۔حکم جاری کیا:” میرے لیے خصوصی دعا نہ کی جائے، صرف اہل ایمان کے لیے دعا مانگی جائے ،اگر میں ان میں سے ہوا تو دعا میں شامل ہو جاؤں گا۔خوف خدا اور تقویٰ کا یہ عالم تھاآپ کی زوجہ فاطمہ بنت عبدالملک نے گواہی دی،” عمر سے بڑھ کر اپنے رب سے ڈرنے والاشخص میں نے نہیں دیکھا،عشا کی نماز پڑھنے کے بعد مسجدمیں لیٹے رہتے ، دعائیں مانگتے اور آہ وزاری کرتے حتیٰ کہ نیند کا غلبہ ہو جاتا ،بیدار ہوتے توپکارتے اور گریہ کرتے حتیٰ کہ پھر سو جاتے،اسی طرح صبح ہو جاتی۔ ”ایک بار مسور کی دال کھانے سے پیٹ میں درد ہوگیا کہا،” میر ا پیٹ گناہوں میں ملوث ہو گیا ہے۔” خلیفہ بننے سے اپنی وفات تک انھوں نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایااور بیت المال سے ایک پائی بھی نہیں لی۔ایک چادر تھی جسے جمعے کے دن دھوتے او ر کچھ زعفران لگالیتے۔وفات کے بعد ان کے کپڑوں عمامہ ،قمیص،قبا،موزوں اورچادر سب کی کل مالیت ۲۱ درہم لگائی گئی۔ جب عوام کے کام کی خاطر رات جاگتے تو بیت المال کاچراغ جلاتے اورجب رات کو اپنا ذاتی کام کرتے تو ذاتی چراغ جلاتے۔ ایک رات کام کرتے ان کا چراغ ٹمٹانے لگا تو اسے درست کرنے اٹھے۔کہا گیا ،”اے امیرالمومنین !ہم یہ کام کرنے کے لیے موجود ہیں۔”فرمایا، ” یہ کام کرنے اٹھا تھا توبھی عمر تھا اور اب بیٹھا ہوں تو بھی عمرہی ہوں۔ اہلیہ کے پاس ایک قیمتی پتھر تھا۔ پوچھا ،”یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا ہے ؟انھوں نے بتایا، ” یہ مجھے امیر المومنین عبد الملک بن مروان نے دیاتھا۔”آپ نے کہا،” اگر میری بیوی رہنا چاہتی ہو تو بیت المال میں جمع کرا دو یامجھے اپنے آپ سے الگ ہونے کی اجازت دے دوکیونکہ میں ،تم اور یہ پتھر ایک گھر میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔”اہلیہ نے جواب دیا ،”میں آپ کو ان جیسے لاکھوں جواہرات پر ترجیح دیتی ہوں۔”جب عمرکی وفات کے بعد یزید بن عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے یہ پتھر اپنی بہن کو واپس دینا چاہالیکن انھوں نے انکار کر دیا،اور کہا میرے خاوند سے میرا وعدہ تھا میں نہیں لے سکتی۔خلافت کا بار کندھوں پر آیا تو آخرت سے تعلق اور بڑھ گیا،موت ہر دم آنکھوں کے سامنے رہتی۔میمون بن مہران نے آپ سے کہا، ”رات کا پہلا حصہ آپ لوگوں کی ضروریات میں لگے رہتے ہیں ،نصف شب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور آخری رات میں اللہ جانتا ہے کہ کیا کرتے ہیں؟”ان کی مراد تہجد کی نماز تھی۔خلیفہ بنتے ہی یہ دنیا ااور اس کی رنگینیاں ان کے لیے اجنبی ہو گئیں۔ایک ایسے مسافر کی طرح جسے اپنی پروا کی بجائے صرف منزل کی فکر رہتی ہے۔ حکمران بننے سے پہلے ایک بار مدینے میں علی بن بذیمہ نے انہیں دیکھا،وہ کہتے ہیں، ”میں نے انہیں مدینے کے ایک بازار میں دیکھا ،بہترین لباس اورعمدہ خوش بو کی وجہ سے ممتاز نظر آتے تھے،سب سے زیادہ کڑی چال چلتے تھے۔ پھرمیں نے ان کو دور خلافت میں دیکھا عام مسافروں کی طرح عجز کے ساتھ چل رہے تھے۔لوگوں نے اپنے اس حکمران کو ایسے عالم میں دیکھا کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر گشت کرتے مبادہ کوئی مشکل میں نہ ہو۔ صرف دو سال پانچ ماہ پندرہ دن حکومت کی اور رہتی دنیا کے لیے ایک نظیر قائم کر دی۔پھر کوئی ان جیسا نہ آیا۔ اپنی زندگی میں صرف ایسے حکمرانوں،ایسے لمحوں کا انتظار ہے،جو ایک خواب کی مانند ذہن میں چپک سے گئے ہیں۔ خواب جو تعبیروں کی راہ تک رہا ہے۔وہ لمحے جو رک سے گئے ہیں۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ دور آنے ہی والا ہے۔یوں وقت بھی گزر گیا،لمحے بھی ،عمر بھی،کوئی عمرؓ بن خطاب،کوئی عمر بن عبدالعزیز کی گرد پا جیسا بھی نہ آیا۔

حصہ
صغیر قمر ایک صاحبِ طرز قلم کار اور کالم نگار ہیں،گزشتہ 24 سال سے کالم نگاری کر رہے ہیں ان دنوں و روزنامہ خبریں کے لیے لکھ رہے ہیں

جواب چھوڑ دیں