بحیرہ عرب کے کنارے پاکستان کا ساحلی شہر گوادر جو موجودہ معاشی دوڑ میں دنیا بلخصوص براعظم ایشیاء میں اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔
گوادر دنیا کی سب سے گہر ی بندرگاہ ہے جو کہ China Pakistan Economic Corridor(CPEC) کا مرکز بھی ہےCPECچین کے شہرسنکیانگ سے لے کر گوادر تک 2442کلومیٹر لمبا روڑ ہے جس کی کل لاگت 50بلین امریکی ڈالر ہے جس میں انرجی زون، سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک،تعلیمی ادارے،ہسپتال اور رہائشی کالونیوں سمیت دیگر کئی اہم پروجیکٹ شامل ہیں مگر ان تمام منصوبوں اور بجٹ کی خطیر رقم ہونے کے باوجود گوادر اور مکران ڈویژن کے مکین اپنے حقوق کے لیے لمبے عرصے سے سراپا احتجاج ہیں جس میں گزشتہ مہینے سے شدت دیکھنے میں آرہی ہے اور احتجاج بھی ایسا کہ شاید بلوچستان کی سرزمین نے حالیہ تاریخ میں اتنی بڑے پیمانے پر احتجاج و دھرنا پہلی بار دیکھا ہے۔
مردو جوان،بچے و بوڑھے حتی کہ برقعہ پوش خواتین کی بڑی تعداد نے احتجاج ریکارڈ کروائے جو کہ اب صرف گوادر و مکران ڈویژن کا نہیں بلکہ پورے بلوچستان کا احتجاج بن چکا ہے لوگ اپنے حقوق سلب اوراشرافیہ کے ظلم و ستم کے خلاف پھٹ پڑے ہیں جن کے تمام تر مطالبات بنیادی انسانی حقوق کے متعلق ہیں وہ چاہتے ہیں کہ گوادر سے ملحقہ سمندر میں ٹرالنگ پر مکمل پابندی لگائی جائے جس کی معافیاز کررہے ہیں غیر قانونی ٹرالنگ نے گوادر کے شہریوں کا روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ماہی گیری چھین لیا ہے جس سے نسل کشی کا شدید خدشہ ہے ماہی گیری گوادر کے شہریوں کا بنیادی حق ہے۔
دوسرا بڑا مطالبہ سیکیورٹی کے نام پر ہر گلی و بازار کے موڑ پر چیک پوسٹوں کو ہٹائے جانے کاہے ہزاروں سال سے رہائش پذیرمقامی آبادی کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹوں پر ہماری روزانہ کئی کئی بارتلاشی کے نام پر تذلیل کی جاتی ہے اپنے ہی گھر سے نکلنے اور داخل ہونے پر کدھر سے آرہے ہو کدھر جارہے ہو؟جیسے تضحیک آمیز سوال کیے جاتے ہیں تیسرا بڑا مطالبہ بارڈر ٹریڈ پر روک ٹوک سمیت کمیشن و ٹوکن کاخاتمہ اور مقامی آبادی کو نشے کی عادت میں ڈالنے والے ڈرگ مافیاپر مکمل پابندی لگاناہے جبری گمشدگی کاخاتمہ اور CPECکی اولین ترجیحات کو مقامی لوگوں کے موافق استوار کرنے جیسے چند بنیادی مطالبات ہیں اگر ہم غیر جانبدار ی سے مقامی آبادی کے تمام تر مطالبات کا جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی معلوم ہوگا کہ کوئی مطالبہ ایسا نہیں جو غیر قانونی اور ناجائز ہو۔
ترقی کے نام پرنسل در نسل روزگار کے ذرائع سے مرحوم کرنا کہاں کا انصاف ہے صبح وشام اپنی تذلیل کون برداشت کرتاہے کون یہ برداشت کرے گا کہ اس کے علاقے میں ایسے اسٹیڈیم بنائے جائیں جہاں مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کے بچے سیرو تفریح پر آئیں اور کھیلیں جبکہ مقامی بچوں کوعلاج و معالجے اور سکول و کالجز جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہ ہوں قانون فطرت ہے کہ کسی بھی قدرتی نعمت میں سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہوتا ہے پھر باقی دنیا کی باری آتی ہے دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مقامی آبادی کی حق تلفی کر کے دنیا کو اس کے ثمرات پہنچ سکے
ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے بزور طاقت حقوق سلب کرکے مقامی آبادی کی خواہشات کا احترام کیے بغیر اپنے فیصلے صادر کرنا،میڈیا پر سنسرشپ لگاقوم سے اصل حقائق چھپانا، بات چیت کی بجائے طاقت کا استعمال کرناکسی مسلے کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے
اگر ہم چاہتے ہیں کہ CPEC برصغیر کا معاشی مرکز بنے تو ہمیں ہر ممکن حد تک گوادر کے لوگوں جائز مطالبات حل کرنے ہونگے جس کے لیے ماہی گیری کی اجازت دینا اور ٹرالر معافیا کی مکمل روک تھام، ضرورت کے مطابق شہر کے داخلی و خارجی دروازوں پر سیکیورٹی چیک پوسٹوں کے علاوہ اندرون شہر گلی محلوں سے غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ، منشیات فروشوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی،بجلی،پانی،گیس اور تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضروریات فراہم کرنا،
کسی بھی طرح کے فیصلوں میں مقامی قیادت کی رائے کا احترام کرناچاہیے سی پیک پروجیکٹ میں سے گوادر شہر کو مناسب حصہ دینا چاہیے سب سے بڑھ کر مقامی مسائل کا سبب کسی دوست ملک کو ٹھہرانا جیسے کے سمند ر میں غیر قانونی ٹرالنگ جو پاکستانی اشرافیا کے ہیں اس کو چین سے منسوب کیا گیا جس سے چین نے مکمل لاعلمی کااظہار اور شدید الفاظ میں مذمت بھی کی اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو غدار اور دشمن کا ایجنٹ قرار دینے سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔
کالم نگار : محمد عثمان