صحافت ایک ذمہ دارانہ پیشہ ہے۔ جب میں نے صحافت کی تعلیم کا آغاز کیا تو ہمارے استاد محترم نے ہمیں ایک حقیقی کہانی سنائی ،آپ نے بھی پہلے یقیناً سنی ہوگی ۔’’کیون کارٹر‘‘ ایک بہترین فوٹو جرنلسٹ تھا۔اس نے سوڈان میں مارچ 1993 ایک تصویر کھینچی۔ایک بچے کی تصویر جو بھوک کی وجہ سے اتنا نڈھال تھا کہ ادھ موا پڑا تھا اس بچے کے سامنے ایک گدھ اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ کب بچہ مرے اور وہ اپنی بھوک مٹائے۔یہ سوڈان کے اس وقت کے حالات ہیں جب سوڈان میں خوراک کا قحط تھا۔اور کیون کارٹر اس وقت خوراک کے مراکز کی فوٹو گرافی کرنے جا رہا تھا۔ کیون کارٹر نے بچے اور گدھ کے اس منظر کو اپنے کیمرے میں قید کیا اور آگے بڑھ گیا۔اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ بچے کے ساتھ کیا ہوا، وہ زندہ بچا یا مر گیا۔یہ تصویر کیون کارٹر نے نیو یارک ٹائمر کو بھجی تصویر اس حد تک اثر رکھتی تھی کہ 1994 میں کیون کارٹر نے پینٹر پرائز حاصل کیا۔تصویر کو دیکھا جائے تو وہ تصویر خود اپنی کہانی بیان کرتی ہے۔
ایک بچہ کمزوری ،لاچاری ،مجبوری کی اس حالات میں گرا پڑا ہے کہ ایک قدم آگے بڑھانا اس کے لئے محال ہے نزدیک ہی ایک گدھ اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب بچے کی روح اس سے الگ ہو اور ہو اپنی بھوک مٹا سکے اور ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا شخص جو تصویر لینے کے علاوہ بھی کچھ کر سکتا تھا۔
یہ تصویر شائع ہوئی تو ہزاروں لوگوں نے کیون کارٹر سے رابطہ کیا ۔جاننا چاہا اس بچے کا کیا ہوا۔ کیا کیون کارٹر نے تصویر کے بعد اس بچے کی کوئی مدد کی ؟ بچہ اب حفاطت سے ہے یا مرگیا ؟ مگر افسوس یہ تھا کہ کیون کارٹر خود نہیں جانتا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا انجام ہوا ؟ لوگوں نے اس پر شدید اعتراضات شروع کر دیئے لوگ اس سے پوچھتے تھے اس نے بچے کی مدد کیوں نہیں کی؟کیون کارٹر تندرست تھا چل سکتا تھا اس بچے کا بوجھ اٹھا سکتا تھا پھر اس نے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا ؟ مگر کیون کارٹر کے پاس ان سوالات کے کوئی جوابات نہیں تھے۔
اس واقعے کے بعد وہ خاموش رہنے لگا ۔وہ ڈپریشن میں چلا گیا اس کو خواب میں بھوک سے بلکتے بچے نظر آنے لگے ،وہ پشیمان تھا کہ اس کا پیشے سے وابستہ جنون انسانیت سے آگے کیسے نکل گیا۔اس واقعے کے بعد 33 سال کی عمر میں کیون کارٹر نے نہایت عجیب طریقے سے خودکشی کرلی۔وہ اپنے گھر کے پاس اسی میدان میں گیا جہاں وہ اکثر بچپن میں کھیلتا تھا۔ اس نے اپنی کار کے سا ئلنسر میں ایک ٹیوب فکس کی اس ٹیوب کو ڈرائیونگ سیٹ والی کھڑکی سے کار کے اندر لایا تمام کھڑکیاں دروازے بند کر دئے اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔ گاڑی میں دھواں بھرنا شروع ہو گیا اور اسی کاربن مونو آکسائیڈ نے کیون کی جان لے لی خود کشی سے قبل کیون کارٹر نے تاریخی الفاظ میرے اور آپ کے لئے چھوڑے:
’’ میں بہت شرمندہ ہوں، زندگی کا درد اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب خوشی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوں۔میرے پاس کچھ نہیں بچا میں اپنا فون تک بیچ چکا ہوں ۔بل بھرنے کے پیسے تک نہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر بچوں کی جان بچانے کے لئے اب میرے پاس رقم نہیں ہے اور بھوکے زخمی مرتے ہوئے بچے۔لاشیں۔ یہ سب یادیں مجھے بے حد تنگ کرتی ہیں اب مجھے جانا ہوگا۔‘‘
یہ ایک کہانی نہیں تھی پیشے اور انسانیت کے بیچ اس طرح کے لاتعداد واقعات بھریں ہیں جو فوٹو جرنلزم سے منسلک ہیں۔اسی طرح امریکی اخبار نیو یارک میں 2012 میں ایک ایسے شخص کی تصویر شائع کی گئی جسے ریل کی پٹری پر دھکا دیا گیا اور ریل نے اسے کچل دیا۔ جرنلسٹ نے یہ منظر کیمرے میں قید کیا پر ایک انسانی جان ضائع ہو گئی۔
اس بات کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کے صحافی کے کاندھوں پر بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں مگر کوئی بھی پیشہ انسانیت اور خدمت خلق سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔وقت گزر جاتا ہے ہم اپنے پیشہ میں جو کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی پا لیتے ہیں۔ مگر پھر ایک وقت آتا ہے کبھی ضمیر کے جھنجوڑنے کے نام پر اور کبھی حساب کے نام پر۔ضمیر کی پکڑ ہو یا اللہ کے حساب کا وقت۔جب آن پڑتا ہے تو کوئی جائے فرار نہیں ملتی۔ سکون کی کوئی جگہ نہیں ملتی۔ ہر شخص جو کسی بھی ذمہ داری پر فائز ہو اس کو اپنے پیشے ورانہ فرائض اور خدمت خلق کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ایک حکمران کو اپنی رعایا کے ساتھ انصاف میں ، لوگوں کو آپس کے تعلقات میں،انسان کوہر حالت میں فکر کرنی چاہیے۔