ویسے توہمیں ہمہ وقت مثبت انداز فکر ہی اپنانا چاہئے پھر بھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اوورسیز کو حق ووٹ دینا محض نعرہ زمستاں کے سوا کچھ نہیں۔اس لئے کہ پاکستان میں کون سے ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے معاشی و سیاسی مقاصد کے لئے اوورسیز کو استعمال نہیں کیا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اپنوں اور ملک سے دوری کی بنا پر ان اوورسیز کے دل اپنوں اور ملک کے لئے ہمیشہ ہی دھڑکتے ہیں۔
وہ نہ اپنوں کی مصیبت اور نہ ہی ملک کے مصائب سے طوطا چشمی کر سکتے ہیں۔لہذاقرض اتارو ملک سنوارو سے لے کر تاحال کبھی ملکی خلفشار یا معاشی بدحالی میں اوورسیز پیچھے نہیں ہٹے بلکہ دامے درمے سخنے اپنے آپ کو ہراوّل دستے میں رکھااور ثابت کیا کہ ہم ملک کے لئے اپنی جان اور خون کا نذرانہ دینے سے بھی گریز پا نہیں ہیں۔لیکن ہمیشہ ہی ان کے ساتھ ہاتھ ہو جاتا ہے،کہ ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کروا کر ہمارے سیاستدان ان اوورسیز کو سیاسی و معاشی مقاصد کے لئے استعمال کر کے ٹشو پیپر کی مانند پھینک دیتے ہیں۔
پھر بھی ہم تارکین وطن ہمہ وقت ملکی وقار،سیاسی استحکام،معاشی خوشحالی اور اپنوں کے مسائل کے حل کے لئے شب وروز مصائب سے کمایا ہوا پیسہ زرمبادلہ کی مد میں پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ہم اوورسیز اپنی پرواہ کئے بغیر ملکی پرواہ میں وہ سب کچھ لگا دیتے ہیں اس سوچ کے ساتھ کہ کبھی تو ملکی حالات بدلیں گے؟حالانکہ لاکھوں پاکستانیوں کے پاس پاکستانی پاسپورٹ بھی نہیں ہوتا لیکن جہاں کہیں انہیں سبز ہلالی پرچم لہراتا ہو نظر آجاتا ہے ان کی قومی غیرت جاگ جاتی ہے،حب الوطنی عود کر سامنے آجاتی ہے۔اور اسی سبز ہلالی پرچم کی دنیا جہاں میں بلند و سرفرازی کی خاطر وہ اپنا سب کچھ بھول کر اپنا سب کچھ ملک کی خاطر لٹانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔لیکن یہی اوورسیز جب پاکستان جاتے ہیں تو اپنے ہی انہیں لوٹنے کو تیار ملتے ہیں۔
میں گذشتہ بیس برس سے خلیجی ملک قطر میں قیام پذیر ہوں،قطر دنیا کا واحد ملک ہے جس کی فی کس آمدنی اب سرفہرست خیال کی جاتی ہے،دنیا کی بہترین ائرلائن قطر ائر لائن قرار دی جا چکی ہے،دنیا کے خوبصورت ائر پورٹس میں قطر ائر پورٹ کا شمار کیا جاتا ہے،خواتین کی شرح خواندگی خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔اسلامی ممالک کا صاف ترین ملک بھی سمجھا جاتا ہے۔قانون کی پاسداری اور سہولیات کی فراہمی میں بھی دنیا کے چند ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔یہاں بہترین،تعلیمی،طبی اور سیکیورٹی کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
سیفٹی کا عالم یہ ہے کہ رات کے بارہ بجے بھی اگر کوئی اکیلی عورت شاپنگ سے یا اپنے کسی کام کی غرض سے واپس گھر آرہی ہو تو اسے کسی قسم کا کوئی خوف سرزد نہیں ہوتا کیونکہ قانون کی عملداری اس ملک میں سرفہرست ہے۔باوجودیکہ تعطیلات گرما سے قبل ہی ملک کی یاد میں ایک طوفان برپا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور تو اور ایک دن کی تاخیر بھی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ان بیس سالوں میں کتنی حکومتوں کے اتار چڑھائو دیکھنے،مشاہدہ کرنے اور انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔تاہم وعدے ہر حکومت نے کئے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا،اور وہ ادھار ہی کیا جو ادا ہو گیا۔
آپ سب کو یاد ہو گا کہ ن لیگ نے اپنے دور اقتدار میں عمران خان جیسا نعرہ لگایا تھا کہ اوورسیز کو ووٹ کا حق ضرور ملنا چاہئے اور ای وی ایم مشین کا استعمال الیکشن سسٹم کو پاکستان میں صاف شفاف بنانے کے لئے ضرور ہونا چاہئے۔ایسے ہی انتخابی نعرے عمران خان نے بھی لگائے تھے لیکن فرق کہاں آیا؟جب عمران حکومت نے ان دو کاموں کے اطلاق کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تو دونوں کی بھرپور مخالفت پاکستان کی دو بڑی جماعتوں ن اور پی پی نے اس انداز اور بھر پور طریقے سے کی کہ اوورسیز کا ان پر سے اعتماد ہی جاتا رہا۔یہ تو تھے ن لیگ اور پی پی کے انداز مخالفت،اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان حکومت نے یہ بل منظور تو کروا لیا مگر اس کا امتحان اب شروع ہوگا۔وہ یہ کہ
کیا عمران خان اوورسیز کے ووٹ اور ای وی ایم کا اطلاق ممکن بنا پائے گا؟کیا حزب اختلاف اس مسئلہ کو عدالت میں لے کر جائے گی؟اگر اپوزیشن اس مسئلہ کو عدالت میں لے جاتی ہے اور عدالت الیکشن کے حق میں فیصلہ بھی سنا دیتی ہے تو پھر عمران حکومت کے پاس کیا لائحہ عمل ہو گا کہ ای وی ایم کے استعمال کو ممکن بنا ئے۔ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب ابھی حکومت وقت کو تلاش بھی کرنا ہے اور ان کا مناسب حل بھی عوام کے سامنے رکھنا ہے۔علاوہ ازیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اوورسیز کو ان کے ووٹ ڈالنے کا حق دے کر ،کیا ان کے تمام مسائل حل ہو جائے گے۔ا سلئے کہ صرف حق ووٹ ہی اوورسیز کا مسئلہ نہیں ہے۔
وہ بے چارے تو اپنے لئے ایک موبائل فون بھی نہیں لا سکتے۔بلکہ اپنے زیر استعمال موبائل کو بھی اگر دو ماہ سے زائد عرصہ ہو جائے تو ان کا فون بند کردیا جاتا ہے کہ پہلے وہ اپنے زیر استعمال فون پر ٹیکس ادا کریں تب وہ اپنے ہی فون کو استعمال کر پائیں گے۔اگر کوئی تارکین وطن مستقل بنیادوں پر اپنے ملک میں رہنا چاہ رہا ہے تو پھر بھی انہیں اپنے فون پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔جب بھی ملک کو مسائل و مشکلات درپیش ہوتی ہیں حکومتیں اوورسیز کی حب الوطنی اور رشتوں کی مناسبت سے بلیک میل کر کے ان سے زرمبادلہ تو ضرور منگوا لیتی ہے لیکن ائرپورٹ پر ہی جو ان کے ساتھ سلوک روا رکھا جاتا ہے ان سے وزیراعظم خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔تو وزیر اعظم صاحب سے عرض ہے کہ مسائل کا تو ایک ایسا ریڑھی بان جو کبھی ملک کیا اپنے شہر سے بھی باہر نہیں گیا وہ بھی بتا دے گا۔ان مسائل کا حل کیا ہے ؟
اسی لئے مجھے کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ سروے یہ بتا رہے ہیں کہ اوورسیز اپنے 80 فیصد ووٹ خان صاحب کو ہی کاسٹ کریں گے۔اور ان اوورسیز کے ووٹ کا اثر صرف ایک حلقہ انتخاب پر نہیں بلکہ کم وبیش چالیس حلقہ انتخاب پر پڑے گا۔لہذا اگر ایساعملی طور پر ممکن ہو جاتا ہے تو عمران خان صاحب ایک بار پھر سے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ضرور بنیں کیونکہ جمہوریت کا حسن ہی یہی ہے کہ جس کے انتخاب میں عوامی رائے کی اکثریت ہو گی وہی مملکت کا سربراہ ہوگا۔
میں نے اپنے بہت سے کالمز میں خان صاحب کی پالیسیوں کو سراہا بھی ہے اور حدف تنقید بھی بنایا ہے۔میں اس حق میں بھی ہوں کہ ای وی ایم کا استعمال ضرور ہونا چاہئے اور اوورسیز کو ووٹ کا حق دے کر خان صاحب نے ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے تارکین وطن کے بارے میں عزائم کو بھی ننگا کردیا ہے۔لیکن اختلاف مجھے یہ ہے کہ جو اوورسیز اور جن کی تعریف آپ دن رات کرتے تھکتے نہیں محض زرمبادلہ منگوانے کے لئے،ان کی اوقات آپ کی نظر میں یہ ہے کہ وہ اپنے استعمال کا موبائل بغیر ٹیکس کے بھی اپنے پاس دو ماہ سے زائد عرصہ پاکستان جا کر نہیں رکھ سکتے۔جبکہ کتنے ٹیکس چور جو ہو سکتا ہے آپ کے اردگرد بھی ہوں ان کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں۔
خدا را از خود نوٹس لیتے ہوئے اوورسیز کے حقیقی مسائل کو بھی جاننے اور ان کے حل کی کوشش بھی کریں۔وگرنہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔جانے والوں میں سے کل آپ بھی ایک ہوں گے۔اس سے قبل کہ آپ کا شمار بھی ان حضرات میں ہو ،جو آج خود پردیس میں بیٹھ کر ماضی کو پیٹ رہے ہیں،اوورسیز کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے حکم نامے جاری کریں۔