راہنما اور راہنمائی کی نظیر آقا ﷺ کے ماسوا کوئی اور تاریخ اسلام کیا ؟تاریخ عالم میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکے گی۔اس لئے نہیں کہ میں ایک مسلمان ہوں بلکہ اس لئے کہ یہ ایک عالمگیر صداقت اور تا قیامت حقیقت ہے،جس کا ادراک اور تسلیمات غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔گویا راہنمائی اور راہنما میں میرے حبیب یکتا و لاثانی ہیں۔اگر اسوہ حسنہ کا صرف ایک پہلو کا مطالعہ کر لیا جائے تو حقیقت ہم سب پر عیاں ہو جائے گی کہ ایک لیڈر یا راہنما کون ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟جنگ خندق کی کھدائی کا زمانہ ہے،سب اصحاب رسول ﷺ خندق کھودنے میں مصروف ہیں،شب و روز ایک کئے ہوئے ہیں کہ کبھی بھی دشمنان اسلام و رسول مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہو کر چند سو اصحاب رسول ﷺ پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔
ایسے میں ایک صحابی آپ ﷺ کے پاس تشریف لاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ میرا بھوک سے برا ہو رہا ہے کھانے پینے کو کچھ نہیں اور میں نے اپنے پیٹ کو سہارا دینے کے لئے ایک پتھر باندھ رکھا ہے۔تو اس کے جواب میں میرے آقا ﷺ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاتے ہیں تو تمام اصحاب انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ میرے حبیب نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے ہیں اور اپنے پیارے صحابیوں کے ساتھ مل کر اپنے حصہ کا کام کر رہے ہیں۔یہ ہیں میرے راہنما و لیڈر۔
عصر حاضر میں جب میں اپنی ملک کی سیاسی حالت اور سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں،چالاکیوں ارو کرپشن کے الزامات دیکھتا ہوں اور ان کے منہ سے جب اپنے آپ کو لیڈر ہونے کی دعویداری کا مطالعہ کرتا ہوں تو سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ کیا ایسے حضرات کا موت پر تیقن اتنا ہی کمزور ہے کہ انہیں خدا اور رسول ﷺ کی تعلیمات بھی بھول گئی ہیں۔کیا یہ لوگ اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے اپنے آ پ کو لیڈر کہلوانے کے حقدار ہیں۔انہیں کیوں غالب یاد نہیں آتا
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کومگر نہیں آتی
سوال یہ ہے کہ لیڈر اور سیاستدان میں فرق کیا ہے؟سیاستدانوں کی تعریف اس مثال سے بہتر نہیں سمجھائی جا سکتی کہ ایک جواری جو ایک کمزور گھوڑے پر شرط لگا کر شرمندہ ہو نے کی بجائے اعتماد سے سب کو بتا رہا ہوتا ہے کہ میرا وہ گھوڑا نہیں جو سب سے پیچھے بھاگ رہا ہے بلکہ وہ گھوڑا ہے جس نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے۔جبکہ لیڈر کی تعریف اس سے بہتر کیا ہو سکتی ہے کہ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہاگر سو شیروں کو ایک بھیڑ راہنمائی کر رہی ہو تو شیر بھی گیڈر اور بھیڑ ہی بن جاتے ہیں۔یہی حال کچھ ہمارے سیاستدانوں کا بھی ہے جو سیاستدان تو ہیں مگر راہنما نہیں ہیں۔میری رائے میں ایک عظیم لیڈر کی پہچان یہ ہے کہ جب وہ سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو اس کا اثاثہ ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے نا کہ اس میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے۔جیسا کہ اگر پاکستان کی مثال پیش کی جا ئے تو لیاقت علی خان ایسے سیاستدان تھے جو کہ ریاست ترنول کے امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن جب شہید ہوئے تو ان کے جسم پر پہنے ہوئے کپڑوں کے نیچے موزے اور بنیان تار تار تھے۔یہ ہے ایک لیڈر اور سیاستدان میں فرق۔افسوس کہ آج ہمارے پاس سیاستدان تو سب ہیں لیکن لیڈر شائد خال خال ہو۔گویاہیں لوگ مگر چیدہ چیدہ۔
پاکستان کا المیہ روز اول سے ہی یہ رہا کہ انہیں سیاستدانوں کا جم غفیر تو ملا مگر لیڈران کا فقدان رہا۔خشت اول کے طور پر اگر پہلے عشرے کے سیاستدان ہمیں بطورمخلص لیڈر دستیاب ہو جاتے تو عین ممکن تھا کہ آج پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کا گراف اتنی اونچائی پہ ضرور ہوتا کہ ہمیں دردر کشکول لے کر گھومنا پھرنا نہ پڑتا۔اور نہ ہی ہر آنے والی حکومت کو ی بہانہ مل پاتا کہ سابقہ حکومت خزانہ خالی کر کے چلی گئی،اس لئے ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔آخر ایسا ہوا کیوں؟ہم نے اصل میں اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔اگر ہم اس بات کا احساس اپنے اندر،میں بات کر رہا ہوں اپنے سیاستدانوں کی جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ دوڑ تھی یا ہے،پیدا کر لیتے تو ہم اپنی وسائل کو بروئے کار لا کر اپنی معیشت کو مضبوط کرتے نہ کہ مالی اداروں کے پاس اپنے ملک کو گروی رکھتے۔
چینی صدر مائو صحیح کہتا تھا کہ ہم کسی ملک کی مدد کے لئے انہیں مچھلی نہیں دیتے بلکہ انہیں مچھلی پکڑنے والا کانٹا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے وسائل خود پیدا کر کے اپنی مدد آپ کر سکے۔تاریخ شاہد ہے کہ وہی قومیں آج بھی تاریخ ِ کتب میں محفوظ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اپنی ہمت ،استعداد اور پہچان کو زندہ رکھا۔لہذا ہمیں سیاستدانوں کی نہیں بلکہ قائد جیسے عظیم راہنمائوں کی ضرورت ہے جنہیں اپنا آپ،اولاد اور نسل نہیں بلکہ ملک عزیز ہو۔ان سیاستدانوں کو لیڈر بنانے کے لئے باہر سے کسی نے نہیں آنا بلکہ ہم سب نے مل کر جیسے وہ ہمیں بے وقوف بناتے ہیں ہم نے انہیں ان کی زبان میں جواب دینا ہے۔تاکہ وہ یہ بات سمجھ جائیں کہ عوام بھی شعور رکھتی ہے۔راہنما باہر سے نہیں بلکہ ہم میں سے ہی پیدا ہوں گے بس آغا ز اور پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔