ڈاکٹر عبدالقدیر خان

قارئین یہ قصہ اک سائنس کے طالب علم کا ہے۔ نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو بھوپال کے تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر صاحب کے والد عبدالغفور استاد تھے۔والدہ کا نام زلیخا تھا۔بھوپال میں اہل علم کی بہت عزت تھی۔بھوپال کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کو فخر تھا کہ وہاں غدار قادیانی پیدا نہیں ہوئے۔بھوپال مرتے دم تک ڈاکٹر صاحب کا رومانس رہا۔وہاں کا موسم ،کھانے کلچر بھوپال کی سر زمین نے ڈاکٹر صاحب کو اسلامی علوم تحریک پاکستان گھٹی میں پلائی۔انکے والد سرگرم تحریک اسلام کی نشاةثانیہ کے زبردست حامی تھےڈاکٹر صاحب والد کے اوصاف کا مظہر تھے گھر اور ریاست کے مذہبی ماحول نے آپ کو مذہب کا دیوانہ بنا دیا۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ قرآن کی تعلیم بھی لیتے رہےحصول علم کا شوق انکی گھٹی میں تھا۔باعمل مسلمان سچے عاشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم تصوف سے شغف اسلام سے متعلق ان کا وژن واضح تھا۔مذہب پر تنقید برداشت نہ تھی۔

ڈاکٹر صاحب کا تعلق پشتون، کزئی، اعلیٰ منصب سپاہ گر خاندان سے ہے۔وہ ترکی النسل ہیں انکے آباء بارہویں صدی میں برصغیر آئے۔دادا فوجی میں کمانڈر تھے۔ 1952 میں ہائی اسکول پاس کر کے اسی سال اگست میں کھوکھرا پار کے راستے پاکستان آئے۔وقتِ ہجرت ہندستانی پولیس افسروں کے ہاتھوں جو تذلیل ہوئی اسے نہیں بھولے۔ کراچی کے محلہ شیرشاہ میں سکونت اختیار کی۔ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا۔ایف ایس سی میں نان میڈیکل کا چناؤ کیا کیونکہ انجینئرنگ اور فزکس کے مضمون سے انتہا درجے کی محبت تھی۔اس کے علاوہ سائنسی دنیا کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرتے۔کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کے بعد تقریباً تین سال انسپکٹراوزان و پیمانہ جات کی حیثیت سےملازمت کی مگر اس کام میں کوئی چیلنج نظر نہ آیا۔ جرمنی کی بین الااقوامی شہرت یافتہ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔دوسال برلن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی پھر متوقع سسرال اور منگیتر کے اصرار پر جو دی ہیگ میں رہائش پذیر تھے۔ 1963 میں ہالینڈ جانے کا فیصلہ کیا۔ڈیلفٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی سے فزیکل میٹا لرجی میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران مقامی ڈچ خاتون ہینی خان اسلام قبول کر کے ڈاکٹر صاحب کی شریک حیات بنیں۔

یہ خاتون بہترین رفیق مددگار ثابت ہوئیں ڈاکٹر صاحب کے کسی مشن میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ شادی کے وقت ڈاکٹر خان کی عمر 27 سال تھی۔اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو یکے بعد دیگر دورحمتوں سے نوازا۔1967 میں وطن واپس آئے اسٹیل ملز کو اپنی خدمات دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔معمولی تنخواہ پر کام کے لیے راضی تھے لیکن پیارے ملک کے جہلاء نے ہیرے کی پرکھ نہیں کی مایوس ہوکر واپس چلے گئے غیر نے فائدہ اٹھایا۔ ایمسٹرڈیم ہالینڈ کی مشہور فرم ایف ڈی او نے اپنے منصوبوں میں شریک کیا۔یہ تحقیقاتی ادارہ الٹرا سینٹری فیوجز میں مہارت حوالے سے دنیا کی بڑی فرم تھی۔ایف ڈی او یورپ برطانیہ مغربی جرمن ہالینڈ کا عظیم منصوبہ جس کے تحت یورینیم کی افزدوگی عمل میں لائی جارہی تھی۔ایف ڈی او کو دھاتوں کے استعمال میں دشواری تھی۔ڈاکٹر عبدالقدیر مسلم سائنس دان کو اس معاملے میں خاص ادراک رکھنے کی وجہ سے پرکشش معاوضے پر فرم نے اپنے پاس رکھ لیا۔ فرم نے حساس منصوبوں میں شریک کر کے آپ کی قدروقیمت بڑھائی تو ڈاکٹر خان نے بھی اپنے فرائض نہایت دیانتداری سے انجام دے کر بھروسہ قائم رکھا۔ اسی فرم کی طرف سے آپ نے امریکہ میں بھی ہالینڈ کی نمائندگی کی۔ لیکن اس سب میں ڈاکٹر صاحب کا دل پاکستان میں خدمت اور سکونت کے لیے تڑپ رہا تھا۔اک دفعہ ہالینڈ ٹیلی ویژن کے اک مبصر نے بھارت کشمیر موضوع پر کشمیر مؤقف کو غلط قرار دیا تو تڑپ اٹھے حقائق مدلل انداز سے رکھے تو انھوں نے مسئلہ کشمیر صحیح تناظر میں پیش کرنا شروع کیا۔

۶1971کی جنگ ہوئی تو ڈاکٹر صاحب ٹیلی ویژن پر سقوط ڈھاکہ میں پاک فوج کو ہتھیار ڈالتے دیکھ کر اپنے ملک کی کمزوری پر بہت روئے۔کئ دن افسردہ رہے یہ کہا جاسکتا کہ یہ سانحہ ایٹم بم کی تخلیق کی بڑی وجہ بنا۔دوسری ٹھوس وجہ 18 مئ ۶1974 کو بھارت کا ایٹمی دھماکہ تھا۔ڈاکٹر صاحب کو خوف ہوا کہ ملکی سالمیت دوبارہ خطرے میں نہ پڑ جائے۔ڈاکٹر صاحب نے ۶1974 کے وسط میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو خط لکھا جس میں انھیں باور کروایا صرف ان کی ذات پاکستان کے لیے سستا اور مؤثر ایٹمی صلاحیت والا منصوبہ مکمل کرسکتی ہے اس خط نے بھٹو صاحب کے ذہن میں طوفان بپا کیا۔بھٹو صاحب یہ نعرہ لگا ہی چکے تھے کہ گھاس کھا لیں گے ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔لہذا بھٹو نے ڈاکٹر صاحب کی یورینیم افزودگی میں مہارت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔اور اب مذید تاخیر خطرناک تھی۔

پاکستان ری پروسیسنگ کے ذریعے ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے کوشاں تھا۔لیکن ڈاکٹر صاحب الٹرا سینٹری فیوج کے ذریعے یورینیم افزودگی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ امریکہ اپنے ایٹمی ری ایکٹر کے ذریعے پاکستان کو محتاج رکھنا چاہتا تھا یہ مہنگا سودا تھا۔جبکہ ری پروسیسنگ پلانٹ بین الااقوامی نگرانی میں ہوتا۔اس پلانٹ کی فراہمی اس معاہدے سے مشروط تھی کہ پاکستان اسکے مواد سے ایٹم بم نہیں بنائے گا نہ ہی فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔ ۶1974 میں ایٹمی توانائی کے حصول میں پاکستان کی عجلت امریکہ سے چھپی نہ رہ سکیں این پی ٹی کا قانون بنا کر تمام ممالک کو عدم تعاون کے لیے مجبور کیا۔اس طرح کی پابندیاں وقتاً فوقتاً لگاتا رہا جب کہ ایٹمی پالیسی میں بھارت کی معاونت کی۔اس معاندانہ رویے کی وجہ صرف اک تھی کہ مغرب ممالک صرف پاکستان کے نہیں تمام عالم اسلام کے دشمن ہیں۔پاکستان کی جگہ کوئی اسلامی ملک ہوتا اس کا رویہ یہی ہوتا۔ علاوہ ازیں ترقی یافتہ ممالک نہیں چاہتے تھے کہ تیسری دنیا کے ممالک اعلیٰ مہارت اور ٹیکنالوجی حاصل کری۔وہ دنیا کو اپنا دست نگر بنا کر پر صرف اپنی اجاراداری چاہتے تھے۔اس معاملے ميں تمام ترقی یافتہ ممالک متحد ہیں۔

ڈاکٹر خان روشن مستقبل گنوا کر بھٹو صاحب کے بلاوے پر 15 سال بعد وطن واپس آئے۔قومیت نہیں بدلی واپسیء وطن پر جذبۂ جب الوطنی ساتھ تھا جو متقاضی تھا وطن کو بچایا جائے اپنا نقصان کر کے اسے فائدہ دیا جائے۔اور پھر جب عزیمت کی راہ پر چل ہی پڑے تو پھر کسی بھی مشکل پر معذرت کا سہارا نہیں لیا۔اس راہ پر ڈاکٹر اپنے اور غیروں دونوں کے ذریعے آزمائے گئے۔پاکستان کی افسر شاہی انکے نیک ارادے منصوبے ناکام کرنے پر تلی تھی مگر مرد میدان ڈٹ گئے۔

#دشمن کی نیند اڑ گئ ،خوف وہراس سے
خوابوں میں اس کے پہنچا ہے، عبدالقدیر خاں

پاکستان میں ان دنوں منیر احمد خان ایٹمی توانائی کمیشن کا چئیرمین تھا۔وہ الیکٹریکل انجینئر تھا نیو کلئیر سائنسدان نہیں تھا لیکن بھٹو صاحب حقائق سے بےخبر تھے۔اس کے بارے میں ہے کہ امریکہ کا لاڈلا تھا۔ابتداء میں تو نہیں لیکن بعد میں اس کی دشمنی ڈاکٹر صاحب سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ منیر احمد خان اس اہم قومی مشن اور پراجیکٹ سے چشم پوشی کر رہا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے دل برداشتہ ہو کر واپسی کا سوچا۶1976 کو بھٹو صاحب کو خط لکھ کر حقائق سے آگاہ کیا کہ منیر احمد کو جس علم کا دعوی اس کا تجربہ نہیں رکھتے۔بھٹو صاحب جرأت سچائی کے قائل ہوئے واپس جانے سےروکا یہ کہہ کر کہ قوم آپ کا احسان یاد رکھے گی اور آزادی سے کام کی اجازت دی۔اسی سال ڈاکٹر صاحب نے ایف ڈی او کو اپنا استعفٰی بھیج دیا۔ایف ڈی او نے رابطہ کیا اس فیصلے سے باز رکھنا چاہا آپ جیسا ذہین ڈاکٹر پسماندہ ملک میں جا کر خود کو ضائع کرے گا اپنا مستقبل اندھیر کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب قرآنی حکم پر توجہ دینے والے انسان تھے۔ کہا کرتے کہ قرآن نے ٹیکنالوجی تحقیق کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ایف ڈی او نے آپ کی مہارت کو سراہتے ہوئے سرٹیفیکیٹ دیا تحائف دیے اور محبت سے رخصت کیا لیکن بعد میں امریکی مہربانی سے ہالینڈ اور آپ کے تعلقات خوشگوار نہ رہے۔

ڈاکٹر خان نے اٹامک انرجی کمیشن میں شمولیت اختیار کی بعد میں کچھ مسائل کی وجہ سے کہوٹہ پراجیکٹ کو اس سے الگ کر کے 31جولائی 1976 انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز پراجیکٹ 706 کو خود مختار ادارہ بنایا گیا۔1981 میں جنرل ضیاء الحق نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کو ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کا نام دے کر ڈاکٹر صاحب کا حوصلہ بڑھایا۔1978 میں ہی یورینیم کی پہلی کامیابی حاصل کی جس پر مغرب نے اسلامی بم اصطلاح استعمال کر کے شور مچایا۔شدید مخالفتوں پابندیوں کے باوجود صرف آٹھ سال کی مختصر مدت میں معجزاتی نتائج حاصل کیے۔فزیکل میٹالرجسٹ بیش قیمت تربیت ہے۔امریکہ برطانیہ فرانس، روس ،جرمنی، جاپان میں فزیکل میٹا لرجی ماہرین نے انتہائی پیچیدہ پراجیکٹ میں اہم کردار ادا کیا۔ڈاکٹر صاحب میٹالرجسٹ حیثیت میں اپنے پراجیکٹ میں کامیاب ہوئے۔ترقی یافتہ ممالک نے ملین ڈالرز طویل مدت کھپا کر اسے حاصل کیا تھا۔

اک غریب قوم کی قلیل عرصے میں کامیابی انکی عقل سے باہر تھی۔ہالینڈ میں ڈاکٹر صاحب کے خلاف جھوٹا مقدمہ چلامغرب طرف سے پروپیگنڈا الزام تراشی ہوئی لیکن ڈاکٹر صاحب باعزت بری ہوگئے تو مغرب نفسیاتی جنگ کے حربے آزمانے لگا صحت کے بارے میں افواہیں پھیلائیں لیکن دشمن ہر طرح سے مایوس ہی ہوا۔ پاکستان نے بھارت کو خطے کے امن کے لیے اک دوجے کی ایٹمی تنصیبات پر بات کرنے کی تجویز دی۔لیکن غوری کے تجربے کے بعد انتہا پسند بھارت نے 11 مئ 1998 کو ایٹمی دھماکہ کیا۔وزیراعظم نوازشریف صاحب نے مشکل ترین صورتحال میں سترہ دن انتظار کے بعد باوقار کردار ادا کیا۔28 مئ 1998 ڈاکٹر صاحب کی فتح و کامرانی کادن تھا۔چاغی میں اک نیو کلئیر بٹن دبا تاریخ نے کروٹ بدل نیا در کھول ڈاکٹر صاحب کو مبارکی دی۔ڈاکٹر صاحب ان کی ٹیم کے لیے اس دن کے کیا معنی تھے زمین قدموں کے نیچے ہل گئ ۔

ڈاکٹر صاحب کہتے تھے اب کبھی جنگ نہیں ہوگی۔اپنا اور قوم کا تعارف کروادیا۔اک اللہ پر ایمان لانے والے اسکے سوا کسی کے آگے نہیں جھکتے۔امت مسلمہ کی اس طاقت کے اظہار کا جشن پوری اسلامی دنیا میں منایا گیا۔……آہ لیکن جو نہ جھکا نہ قوم کو جھکنے دیا اسے احسان فراموشوں نے غیر کے آگے جھکا دیا۔11 ستمبر 2001 کے بعد تو پاکستانی حکمران کا مقصد امریکہ کی خوشنودی تھا۔امریکی دباؤ پر مشرف نے ڈاکٹر صاحب پر الزام لگا کر سرکاری چینل پر جبراً معافی نامہ پڑھوایا۔ڈاکٹر صاحب کی امریکہ حوالگی میں سابق وزیراعظم میر ظفر اللّٰہ جمالی صاحب رکاوٹ بن گئے۔قوم چاہتی تھی کہ آپ کے ساتھ آپ کی شان مطابق سلوک ہو مگر کہوٹہ پروجیکٹ سے علیحدہ کردیا ڈاکٹر کے علیحدہ ہوتے ہی کہوٹہ اسکی سرگرمیاں فوت ہوگئیں۔20 سال ڈاکٹر صاحب کو عضو معطل کی طرح رکھا تنہائی قید نظر بند کی اذیت دی۔

ڈاکٹر صاحب ناقدری کے باوجود مشنری زندگی گزارتے رہے جی آئی کے انسیٹیوٹ جیسی جدید تعلیمی درس گاہ بنائی۔کے آر ایل ادارے میں سائنسدانوں انجینئرز کے لیے تحقیقات ایجادات حوالے سے ورکشاپس کانفرنس کے انعقاد میں حتی المقدور مدد کرتے۔فلاحی این جی او بنائی۔ بہت سے ادارے ڈاکٹر صاحب کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔آپ کا طز زندگی درویشانہ تھا عام افراد کی حاجات بھی پوری کرتے۔مطالعہ کے شوقین تھے نسیم حجازی پسندیدہ مصنف تھے ادبی ذوق رکھتے بڑے جرائد میں انکے کالمزچھپتے۔شاعروں میں اقبال پسندیدہ تھے۔لباس میں اکثر سفاری سوٹ زیب تن کرتے کھانے کے شوقین مچھلی افریقہ کے خاص آلو مرغوب تھے۔سیاست میں بھی حصہ لیا پارٹی کا دستور قرآن منشور خطبہ حجۃ الوداع رکھا۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کیا۔سچے بے باک تھے اس لیے میرے ملک کی سیاست میں شنوائی نہ ہوئی۔آپ کی زندگی پر درجنوں تصنیفات لکھی گئیں۔آپ کو قائد ثانی کا خطاب دیا گیا۔قوم نے محسن پاکستان کا خطاب دیا۔1989 میں ہلال امتیاز عطا کیا گیا 1996 میں بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا۔دوسری مرتبہ 1999 میں صدر رفیق تارڑ نے نشان امتیاز سے نوازا۔