تمہاری تہذیب اپنے خنجر سےآپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنےگا نہ نا پائیدار ہوگا۔
اسلم کا گھرانہ سات افراد پر مشتمل تھا اسلم اور اس کے ماں باپ بیوی اور تین بچے، دو بیٹیاں سمیراوحمیرا بیٹے کا نام محمود تھا دن کے اوقات میں سب مصروف ہوتے لیکن رات کا کھانا سب ساتھ تناول کرتے اسی دوران داد دادی نصیحت آموز بات ضرور کرتے۔ سمیرا الگ مزاج رکھتی تھی اس کو ہر وقت کی نصیحت اچھی نہیں لگتی تھی۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا بچے اسکول سے یونیورسٹی پہنچ گئے سمیرا پہلے ہی الگ مزاج کی تھی اس کوہر وقت نماز کے لئے اٹھنا اور پردہ کرنااس قسم کی باتوں سےالجھن ہوتی وہ سمجھتی یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں آج کا نوجوان آذاد پسندہے اپنی مرضی سے زندگی گزارنا پسند کرتا ہے وہ بھی اچھے برے کی تمیز رکھتا ہے بس یونیورسٹی میں اپنے ہم خیال دوست بنائیں اتفاق سے شادی بھی ایسے لڑکے سے ہوگئی جو امریکہ رہتا تھا خود بھی آزاد پسند تھا۔
حمیرا اور محمود اپنے دادا کی نصحت پر عمل کرتے اور اسی تہذیب میں ڈھل گئے جو محمد صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے تھے، سمیرا اکثر فون پر حمیرا سے بات کرتی امریکہ کے ماحول کی خوب تعریف کرتی اسی طرح انکے پچے بڑے ہوگے سمیرا اکثر فون پر حمیرا سے کہتی کہ یہاں پر اٹھارہ سال کی عمر سے پچے اپنے پاوں پر کھڑے ہوجاتےہیں پاکستان میں ساری عمر ماں باپ کی انگلی پکڑے رہتے ہیں کئی سال گذرنے کے بعد سمیرا پاکستان آتی ہے بہت مشکل سےاپنے ماں باپ کے گھر پہنچتی ہے ماں باپ بہن بھائی حیران ہوکر سمیرا کو دیکھتے ہیں پریشان ہو کر پوچھتے ہیں تمھاری کیا حالت ہورہی ہیں تمہیں کیا ہوگیا ہے۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی کہ میں آزاد ماحول کو پسند کرتی تھی لیکن آج اپنی سوچ پر پچھتارہی ہوں۔کیوںکہ میرے بچے اس ماحول میں بگڑ گئے بیٹے کو نشے کی عادت ہوگئ بیٹی اپنے بوائے فرئنڈ کے ساتھ رہتی ہے، میرے شوہر۔نے اپنی گرل فرئنڈ سے شادی کر لی ہے میں تنہا رہ گئی ھوں، بڑی مشکل سے پاکستان پہنچی ہوں پھر اپنی بہن کے قریب آکر کہتی ہے کہ تم الله کا شکر ادا کرو تہارے بچے تمہاری عزت کرتے ہیں اور تمہیں ماں کا مقام دیتے ہیں ۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے اپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔
کیونکہ جو قوانین الله نے بنادیئے وہ ہی پائیدار ہیں