رسول اللہ ﷺ کی چالیس سالہ زندگی اور اتنی کسمپرسی کے حالات کے باوجود ان کا کردار کہ سب کیلئے صادق و امین کہلائے اور ہمیں آج تک ہر کسی بڑے کے ذریعے اسوئہ حسنہ کی ترغیب دی جاتی ہے جن بڑوں کو ہم مخلص ہمدرد، عاجز اور نیک صالح پاتے ہیں ، کردار کی خوبصورتی دیکھتے ہیں تو واقعی دل خوش ہو جاتا ہے اور دل خود بخود ان سے محبت کرنے لگتا ہے ۔ جب بھی ہم کسی سے ملتے ہیں تو سب سے پہلے اس کا رویہ اور اسکا لباس ہمیں متاثر کرتا ہے حقیقت مصلحتاً کہہ دینا بھی آج کے زمانے میں معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ۔ آپؐ کے زمانے میں گلاس بڑے بڑے ہوتے تھے ۔ آج کی طرح کاٹنے کوٹنے والی مشینیں نہیں ہوتی تھیں ۔ بڑے بڑے بوٹے بوٹیاں پکائی جاتی تھیں سب مل کر کھاتے تھے ۔
آپؐ وہاں سے گلاس میں منہ لگا کر پانی پیتے تھے جہاں سے حضرت عائشہ پانی پی چکی ہوتی تھیں یا وہاں سے بوٹی کھاتے تھے جہاں سے بی بی عائشہ نے منہ لگا کر کھا یا ہوتا تھا تو یہ معیوب بات نہ تھی بلکہ اظہارِ محبت کا ایک اشارہ تھا ۔ آپ ؐ سے پوچھا گیا کہ آپ کو مردوں میں کون پسند ہیں ؟ تو آپؐ نے فرمایا عائشہ ؓ کے والد میرے رفیقِ غار حضرت ابو بکر ؓ یہ انکی عزت اور یہ ان کے لئے کلام محبت اور اتنا احترام اپنی بیوی کیلئے اپنے سسر کیلئے گویا قدر دانی اور یہی قدر دانی گھر میں معاشرے میں بانٹے تو اس سے کہیں زیادہ قدر دانی آپؐ کے حصے میں بھی آتی لہٰذا آج نوجوانوں کیلئے عزت اور قدردانی کیلئے یہی اسوئہ قابل عمل ہے اور ہونا چاہئے پھر لباس پر نظر پڑتی ہے لباس اللہ نے اتارا ۔ لباس انسان کے جسم کو چھپاتا ہے ۔ اسے عزت اور حسن دیتا ہے ، گرمی سردی سے بچاتا ہے۔ مرد عورت کو لباس کیوں کہا گیا ہے؟ مطلب ایک دوسرے کی عزت توقیر کیلئے کہا گیا ہے ۔ ایک تو عورت کا خود کا لباس اس کی عزت ناموس اس کی حیا ، اسکا وقار ہے ، تحفظ ہے۔ انسان کھانے پینے کے بغیر کئی دن رہ سکتا ہے سکون سے، مگر لباس کے بغیر چند منٹ بھی رہنا پسند نہیں کرے گا یہاں تک کہ بچے کے بھی کپڑے اتار دیں ۔ ذرا بڑے بچے کے ، تو وہ سب سے
چھپتا رہتا ہے یہ ایک فطری عمل ہے ۔ کوئی کبھی بے لباس ہونا نہیں چاہتا ۔ عورت مرد کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے ۔ معاشرتی برائیوں کی روک تھام، معزز زندگی اور معاشرے کیلئے نکاح کو ضروری اور وقت پر کرنے کی تاکید اسی لئے کی گئی ہے کہ عورت اور مرد کی عزتیں حرمتیں محفوظ رہیں اور پاکیزہ معاشرہ جنم لے ۔ بے راہ رویاں ، فحاشی اور مجرمانہ کاموں سے بچنے کا بہترین طریقہ نکاح ہے لہٰذا اس کو آسان بنایا جائے اور جلد از جلد کیا جائے تا کہ گناہ سر زد ہی نہ ہونے پائیں ۔ آج کل کنواریاں الگ بیٹھی ہیں تو اس میں بیوا ئوں اور مطلقہ خواتین کی طرف دھیان کم سے کم جاتا ہے اسے معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ بیوائوں سے نکاح کرنا انہیں اور انکی اولادوں کو تحفظ دیکر مثبت تعمیری معاشرے کا بڑھتا عمل کتنا حسین ہوتا ہے ۔ نوجوانوں کو اللہ کے احکامات اور خوشنودی کااتنا احساس کیوں نہیں ؟ گھر والے کیوں ایسے لڑکوں کو شادیوں سے روکتے ہیں جو خود ان سے شادی کیلئے تیار ہوں ۔
بیوہ سے نکاح کرنے کی فضیلت اپنی جگہ ہے اسکے بچوں کو سرپرستی اور بیوہ کو تحفظ دینا کتنی بڑی نیکی ہے اور معاشرتی سدھار کی طرف ایک احسن عمل ہی تو ہے ۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے اسکا مزہ آج کا یہ نوجوان دین سے دوری کی بناء پر سوچ ہی نہیں سکتا ! نہ اسکی برکت جان سکتا ہے ۔ اسی طرح مطلقہ یعنی طلاق یافتہ سے شادی کرنا اور اس کے عیب نہ بتانے کا حکم ہے ۔ اس طرح کرکے گویا آپ نے ایک دوسرے کو عزت دی وقار دیا اور معاشرے کی تشکیل میں سدھار کے ساتھ ساتھ شائستہ ماحول دیکر اولادوں کو بھی معاشی اور معاشرتی سکھ اور عزت دی اور عزت پائی یہی تو مقصدِ زندگی اور اسوئہ رسولؐ ہے ۔صحابی فرماتے ہیں کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ دس بیس روز بعد میری موت ہے تو میں نکاح کرلوں ۔ اسی طرح مفتی طارق مسعود سے پوچھا گیا کہ رخصتی کرنے کا کیا طریقہ ہے ۔ فرمایا نکا ح ہوا چھوارے بانٹے اور لڑکی کے گھر گئے اگر کھانا کھلایا تو خیر ، مشروب پلایا تو ٹھیک ورنہ رخصتی لیکر گھر آگئے لیکن ولیمہ کیا جائے دوست عزیز رشتہ دار بلوائے جائیں تا کہ نکاح ولیمہ کا اعلان ہوجائے یعنی لڑکی والوں کا خرچہ کم سے کم ہو ۔
حدیث کا مفہوم ہے نا کہ مبارک شادی وہ ہوتی ہے جس میں لڑکی والوں کا خرچ کم سے کم آئے اس کے والدین پر معاشی بوجھ نہ آئے اور لڑکے والوں کی خود داری مقدم رہے ۔ آجکل معذرت کے ساتھ اسکا الٹ ہو رہا ہے ۔ بعض لوگ تو باقاعدہ ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ مکان ، گاڑی ، نوکری ، باہر بھجوانا ، دکان کروانا ۔ سامان ڈلوانا یہاں تک کہ لڑکی بھی کمانے والی ہو ، گورنمنٹ ملازم ہو تو زیادہ بہتر ہے ، دیگر لوازمات کے ساتھ تو بھائی اس طرح یہ تو سودا ہوا شادی نہ ہوئی پھر اللہ نہ کرے بچوں کی وجہ سے وہ نوکری نہ کرسکے تو کیا اسے دھکے دیکر باہر نکالو گے ؟ یوں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکا معمولی ملازمت کرتا تھا ۔ شادی کے دوسرے مہینے سے گھر پر بیٹھ گئے کہ کام نہیں ہوتا ۔ پھر گھر کیسے چلے؟ کیا کرے والدین بھی یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں ہم کیا کریں ۔ تمہارا خود کا مسئلہ ہے ۔ تو گویا لڑکے کی تربیت ، خود داری، قوامی کہاںگئی ؟ کیا ماں باپ لڑکی اور اسکے بچوں کا ذمہ لے سکتے ہیں ؟ یہ کتنا بڑا ظلم ہوگا۔
عورت گھر چلا ئے یا بچوں کی تعلیم و تربیت کرے ۔ اس طرح تو معاشرے میں فسادی ہی جنم لینگے نہ خود چین سے بیٹھیں گے نہ ہی دوسروں کو چین سے بیٹھنے دیں گے ۔ پھر کہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکیاں زیادہ چہیتی ، لاڈلی اور مست ملنگ ہیں ۔ صرف کھانا پینا ، سونا ، بازاروں میں گھومنا نہ کسی کی ذمہ داری ، گھروں سے بیزار ، فوڈ پانڈا اور ہوٹلوں کی دلدادہ ، بھلا وہ ان محنتی شریف زادوں کا کیا حشر کرینگی جو دن بھر محنت سے کمائیں کفا یت شعاری اور دلجوئی سے اپنے گھر کی ضروریات والدین بہن بھائی اور بزرگوں کا احترام کرتے ہوئے حق ادا کریں ۔ صبر شکر سے گزر بسر کرنا چاہیں وہ بے چارے تو اسی نیک بختیں تلاش کرنے میں ہی خوار ہو رہے ہیں کہ آگے نخرے پورے کریں یا نوکری چلائیں جبکہ وہ گھر آکر سب ہی کو چلائیںتواب آپ ہی بتائیں؟ کہاں جائیں ۔