صنم کا گھر راولپنڈی ریلوے لائن کے نزدیک تھا۔ بچپن سے اُسے ٹرین، اور ریلوے اسٹیشن کے پاس لگے بڑ کے درخت سے محبت تھی۔مگرصنم کی والدہ سخت مزاج خاتون تھی۔اُنھیں لڑکیوں کا گھر سے باہر بلاوجہ نکلنا پسند نہیں تھا۔دِن میں دو بار صنم کو موقع ملتا کہ وہ ٹرین کو نزدیک سے دیکھ سکے اور اسٹیشن میں موجود بڑ کے درخت کو چھو سکے۔ یہ موقع اُسے کالج آتے، جاتے میسر ہوتا۔صنم کو کالج جانے سے زیادہ لگاؤ تو بڑ کے درخت اور ٹرین سے تھا۔وہ بڑی محّبت اور شائستگی سے بڑ کے درخت پر ھاتھ رکھتی اور کہتی۔تُم کو معلوم ہے نہ؟ میری چاہ کیا ہے؟ مُجھے یقین ہے ایک دِن وہ آئے گا۔ اور مُجھے لے جائے گا۔دیکھنا میں اُس کے ساتھ یہاں سے اس ٹرین میں بیٹھ کر دور کہیں کسی وادی میں جا کر اپنی زندگی بسر کروں گی۔وقت اسی طرح گزرتا گیا۔ صنم نے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ماں اب جلد از جلد صنم کو پیا دیس سدھارنا چاہتی تھی۔جب سے کالج ختم ہوا تھا۔
صنم گھر کی چار دیواری میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔وہ اب نہ تو بڑ کے درخت کو چھو سکتی تھی۔نہ ہی ٹرین کی پٹڑی پر بھاگ کر ٹرین پکڑنے کی کوشش کر سکتی تھی۔مگر وہ روز مغرب سے پہلے چھت پر جاتی اور دیوار کی منڈیر پر بیٹھ کر آتی، جاتی ٹرین ودیکھتی اور درخت کو دور سے دیکھ کر کہتی….یار دعا کرو نہ؟ وہ آ جائے ،،،،،،،وہ جسے مجھ سے پیار ہو۔وہ جو میرے لیے اپنی جان کی بھی پروا نہ کرے۔دیکھو ! ماں رنگ، رنگ کے رشتے دیکھ رہی ہے۔ایسا چلتا رہا تُو ماں مُجھے یوں ہی کِسی سے بیا دے گی۔
اور پھر محرم کے جلوس کے لیے حفاظتی طور پر تعینات کی گئی پولیس میں سے صنم کو اپنا شہزادہ مل گیا۔ آٹھ محرم کی شام جب صنم چھت پر گئی۔ اور اُس نے بڑ کے درخت کے پاس خوبرو نوجوان کو ڈیوٹی پر تعینات پایا تو۔ جیسے اُسکی عید ہو گی۔صنم کے تو جیسے ہوش اڑ گئے۔ وہ دل ہی دل میں بول اُٹھی۔یا اللہ بیشک صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔واہ کیا خوبصورت نصیب پایا تو نے صنم۔مگر تقدیر کو تو کُچھ اور ہی منظور تھا۔ڈیوٹی پر تعینات جوان کی نظر جب صنم پر پڑی، دونوں کی نظریں دور سے، ایک دوسرے سے چار ہوئی۔اُس لمحہ دونوں کو ایک دوسرے سے پہلی نظر میں پیار ہو گیا تھا
نہ جانے صنم نے کُچھ لمحوں میں کتنے خواب سجا لیے تھے۔دونوں کی نظروں نے ایک دوسرے سے پسندیدگی اظہار بھی کے لیا تھا۔
،دور سے ایک دوسرے کو دیکھنا، اور مُسکرا دینا۔ یہ سلسلہ تین دِن تک جاری رہا ،دس محرم کی شام کو صنم نے سوچ لیا تھا کہ وہ آج آواز دے کر اپنی محبت کا اظہار کر لے گی۔مگر ٹھیک اُسی لمحے شیعہ، سنی فسادات شروع گے اور گولیاں چلنے لگی۔صنم نے ڈر کے مارے کانوں پر ہاتھ رکھ لیےاور آنکھیں بند کر لیں۔جب گولیوں کی آواز بند ہوئی تو صنم نے اپنی آنکھیں کھولیں۔سامنے وہی اسٹیشن تھا وہی بڑ کا درخت تھا مگر خون تھا۔اُسکے محبوب کا خون تھا اور لاش تھی۔لوگ خوف کے مارے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے اور صنم پتھر کی مورت بنے، پھٹی ہوئی نم آنکھوں کے ساتھ اپنی بربادی کا منظر دیکھ رہی تھی۔
اچانک زور دار بارش برسنے لگی اور ہوا کا ایک تیز جونکا بڑ کے درخت کا پتا اڑاتے ہوئے صنم کے چہرے کے پاس لا کر چپکا گئی جیسے اُس پتے نے صنم سے کہا ہو۔سُنو،،،تمہیں نہیں معلوم؟کچھ محبت کی کہانیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں حالانکہ وہ ادھوری ہوتی ہیں،تمھاری تلاش ختم ہوئی۔