ٹیکنالوجی جھوٹ نہیں بولتی

وزیر اعظم عمران خان نے فواد چوھدری کے علاقہ میں ایک شاہراہ کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹیکنالوجی جھوٹ نہیں بولتی،اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی جھوٹ نہیں بولتی کیونکہ ٹیکنالوجی انسان نہیں ہے۔ٹیکنالوجی اگر جھوٹ بولے،وائرس زدہ ہو جائے یا اس کا ریکارڈ گڑ بڑ کرنا شروع کر دے تو اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی انسان ضرور ہوتا ہے۔کیا متاثر کن باتیں کیں وزیر اعظم صاحب نے کہ جب آپ قرض ،ترقی،سیاسی استحکام،معاشیات پاکستان کے بارے میں ٹیکنالوجی سے دریافت کریں گے تو وہ بتائے گی کہ کس دور حکومت میں کیا کام ہوئے ہیں۔اشارہ سب جانتے ہیں کہ سابق ادوار کے کرتا دھرتا میاں صاحبان کی طرف تھا۔گویا یہ ایک تاثر ابھر کر سامنے آرہا تھا کہ ٹیکنالوجی سے جب آپ پوچھیں گے اس کا نتیجہ ن لیگ حکومت کی کرپشن کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
لیکن خان صاحب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اگر ن لیگ کی نہیں ہے تو پی ٹی آئی کی بھی سگی نہیں ،کیونکہ ٹیکنالوجی جھوٹ نہیں بولتی۔آپ کے تمام پراجیکٹس کی جہاں ٹیکنالوجی تعریف کرے گی وہاں جب بھی مہنگائی،قیمتوں کی گرانی ،پٹرول اورعام انسان کے معیار زندگی کی بات پوچھی جائے گی وہ بھی سچ ہی بتائے گی۔اس لئے خان صاحب سے میری گزارش ہے کہ اس سے قبل کہ ٹیکنالوجی پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں سچ بتانا شروع کردے آپ اسے سچا بنانے کے لئے عملی اقدامات کی طرف توجہ دے لیں تو بہتر ہوگا۔اگر ٹیکنالوجی نے یہ سچ بتا دیا کہ خان جی اے پی ایس کے کرداروں کا کیا کیا،واقعہ ماڈل ٹائون کا نتیجہ کیا نکلا،کرپشن کرپشن کا راگ الاپتے رہے لیکن کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ ڈیل کر کے انہیں ڈھیل دے کر ملک سے باہر جانے کی اجازت کیوں دی،ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کیوں نہیں لائے،عدالتوں میں پڑے لاکھوں کیسز کا فیصلہ کیوں نہ ہو سکا،پولیس اصلاحات نہ کرنے کے پیچھے کیا عزائم تھے،آپ ایک کھلاڑی تھے مگر کھیل کے میدان ویران کیوں ہوتے چلے جا رہے ہیں،امیر امیر تر اور غریب روز بہ روز غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے اس کی وجہ کیا ہے،اشیائے خورونوش عام انسان کی پہنچ سے دو ر سے دورتر ہوتی گئی آپ نے کیا اقدامات کئے،پاکستانیوں کو سابقہ حکومتوں کی طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا،ہمیشہ چائنہ کی مثال دیتے رہے،وہ چائنہ جو کہتا ہے کہ ہم بھوکے کو مچھلی نہیں دیتے بلکہ مچھلی پکڑنے کے لئے کانٹا دے دیتے ہیں تاکہ وہ بھکاری نہ بنے بلکہ اپنے وسائل آپ پیدا کر کے اپنا معیار زندگی بلند کرے لیکن جب ٹیکنالوجی سے پوچھا جائے گا تو وہ تو سچ ہی بتائے گی نا کہ آپ کی حکومت نے عام انسانوں کی مدد کر کے انہیں بھکاری بنا یا نا کہ وسائل دے کر انہیں اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا ہنر دیا۔ٹیکنالوجی صرف ان کرپٹ لوگوں کے بارے میں سچ نہیں بتائے گی جو ماضی کا حصہ تھے بلکہ حال اور مستقبل کے ماضی کے بارے میں بھی سچ ہی بتائے گی،کیونکہ ٹیکنالوجی انسان نہیں ہے۔
موٹر ویز،ڈیمز،ماحولیات،ٹری سونامی،بین الاقوامی تعلقات،کے بارے میں ترقی و بہتری کے بارے میں اگر ٹیکنالوجی آپ کی کارکردگی کے بارے میں سچ بتائے گی تو یاد رکھئے گا جیسے پیپلز پارٹی نعرہ لگاتی ہے نا کہ ایک زرداری سب پہ بھاری،ایسے ہی مستقبل میں ٹیکنالوجی ایک نعرہ لگائے گی کہ ایک مہنگائی سب سے بھاری۔وہ کہاوت تو آپ نے سن رکھی ہو گی کہ بھوکے سے چودھویں کے چاند کی طرف اشارہ کر کے پوچھیں کہ وہ کیا ہے ؟تو اس کا جواب ہو گا کہ ’’روٹی‘‘۔
روٹی کے بارے میں جب میں ٹیکنالوجی سے پوچھا تو یقین کیجئے اس نے ایسے ایسے سچ بتائے کہ الامان والحفیظ،کانوں کو ہاتھ لگانے کو دل چاہا۔لیکن خان صاحب بھی آجکل ایک سابق فرانسیسی ملکہ اوراسحاق ڈار والی باتیں کر رہے ہیں کہ روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھا کر گزارہ کر لیں۔خان صاحب
توں کیہ جانیں یار امیراں
روٹی بندہ کھا جاندی اے
وزیر اعظم صاحب اس سے قبل کہ روٹی کے بارے میں ٹیکنالوجی آپ کی حکومت کے بارے میں مزید سچ بتانا شروع کردے،اس ٹیکنالوجی کا تو منہ بند کریں۔اگرچہ ٹیکنالوجی کا منہ بند کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ٹیکنالوجی انسان نہیں ہے۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ٹیکنالجی کا منہ کیسے بند کیا جاسکتا ہے۔اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کہ ایک استاد اپنی کلاس میں بچوں کو سمجھا رہا تھا کہ پہلے عظیم شخص سے بڑا کیسے بنا جا سکتا ہے۔اس بات کو سمجھانے کے لئے استاد صاحب نے ایک چھوٹی لکیر لگا کر بتا یا کہ اگر آپ اس سے بڑی لکیر بنا دیں تو پہلی والی چھوٹی ہو جائے گی۔لہذا وزیر اعظم صاحب اگر چاہتے ہیں کہ سابق حکومت کے بارے میں ٹیکنالوجی سچ بتائے اور آپ کے بارے میں بھی ٹیکنالوجی سچ ہی بولے طویل المعیاد پروگرامز کے ساتھ ساتھ قلیل مدتی پراجیکٹس کا بھی آغاز کریں جس سے اور کچھ نہیں تو عام آدمی کی پہنچ میں روٹی تو آسانی سے آ سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طویل المعیاد پروگرامز آئندہ نسلوں کے مستقبل کے لئے بہترین ثابت ہوتے ہیں لیکن حالیہ نسل بچے گی تو زمانہ مستقبل میں جائے گی۔اس لئے خان صاحب آپ اگر چاہتے ہیں کہ مستقبل بہترین ہو تو اپنے حال کو بہترین بنانے کی سعی پیہم میں مصروف ہو جائیں،وگرنہ ٹیکنالوجی وہی سچ آپ کے بارے میں بھی بولنا شروع کر دے گی جو آج سابقہ حکومتوں کے بارے میں بتا رہی ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔