مسجد اقصیٰ پکارتی رہی اور میں نے دیکھا۔

میں نے دیکھا کے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رات گئے ایک اعلان سنا دیا گیا کہ القدس صہیونی یہودی ریاست کا دارالحکومت ہے۔صہیونی فوجیں چڑ دوڑیں، ہزاروں کلمہ طیبہ کی صدائیں بلند کرنے والے فلسطینیوں پر تشدد کے پہاڑ توڑے جانے لگے لیکن امت مسلمہ کے بڑے بڑے ممالک خاموش دکھائی دئیے، کوئی چلا اٹھا تو ترکی تھا، وہ امام حسن البنا شہید اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کا جانشین رجب طیب اردوگان تھا۔ارے وہی نہیں اس کی قوم بھی چلا اٹھی اور سڑکوں پر آگئی دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں مظاہرے ہونے لگے۔ارے میں نے دیکھا کہ کوریا جیسا غیر مسلم ملک بھی بول اٹھا کہ جب اسرائیل کے نام سے کوئی ملک ہی نہیں تو اس کا دارالحکومت کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر میں افسردہ ہوا امت مسلمہ سے کوئی نہ بولا امت کا درد رکھنے والے اردوگان نے جب مسلم قائدین کو پکارا تو آدھے بھی نہ پہنچے اگربولا تو سید ابو الاعلیٰ مودودی حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کا جانشین ہی بولا اگر بولا تو بر صغیر کا سراج الحق بولا ملک بھر میں سراپا احتجاج بن گیا۔پر ایٹمی اسلامی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو یا القدس القدس القدس چلانے والا ایران ہو یا اسلام کا مرکز کہلانے والا سعودی عرب نہ بولا ۔سید کے جانشین نے جب امت کو بیدار کرنے کے لیے ترکی ہو یا مصر ہو یا بنگلہ دیش و ہند و سوڈان میں احتجاج کی صدائیں بلند کی تو سید کے جانشینوں کے سوا کوئی سراپا احتجاج نہ دکھائی دیا۔ میں نے دیکھا پاکستان میں جب اسی سید کے جانشینوں نے ریلیاں جلوس اور یوم احتجاج منایا تو دوسرے سرکار سرکار کے رٹ گم دکھائی دئیے۔ ہم جنس پرستوں کے مرنے پر سالانہ ماتم منانے والے چیخ اٹھے کے جاؤ فلسطین جا کر جہاد کرو یہاں کیوں تنگ کرتے ہو۔ میں پوچھتا ہوں کیا مسجد اقصیٰ صرف فلسطینیوں کی ہے ؟ یہی نہیں کراچی میں القدس ملین مارچ کا اعلان کر دیا گیا۔ اسلام کا لبادہ اوڑے منافق بے نقاب ہونے لگے ،سوشل میڈیا پر طوفان مچ گیا کہ جماعت اسلامی کی کراچی میں نکلنے والی ریلی کے اعلان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فیصلہ واپس لے لیا ہے ۔اسرائیلی فوجیں واپس لوٹ گئی ہیں اور بے شمار طوفان بدتمیزی بھرے پیغامات دیکھے لیکن نہیں دیکھا تو کوئی ہم جنس پرستوں کی طرح قبلہ اول کے لیے ماتم کرتے نہ دیکھا ۔ارے جماعت اسلامی کے مسجد اقصیٰ کے لیے چار گھنٹے کے ملین مارچ نے تمہارے لیے ایسی کیا مشکلات کھڑی کر دیں تھیں جو تبدیلی اور انقلاب اور حق پرستی کے نام پر نکلنے والے جلسے جلوسوں سے زیادہ تھی، تبدیلی کے جلسوں میں گھنٹوں ناچ کر وقت ضائع نہیں ہوتا کیا اگر وقت ضائع ہوتا ہے اور مسائل کھڑے ہوتے ہیں تو صرف امت کو یکجان کرنے کی بات سے ؟ لیکن میں کیا دیکھتا ہوں ان کے لاکھ پروگینڈہ کے باوجود 17 دسمبر کو نیپا چورنگی پر لاکھوں ماؤں بہنوں بیٹیوں ، نوجوانوں بزرگوں کا سمندر امڈ آتا ہے۔ سید کے جانشین امت کا درد لیے دنیا کو پیغام دینے سڑکوں پر پہنچ جاتے ہیں کہ اقصیٰ بیت المقدس قبلہ اوّل ہمارا ہے وہ فلسطین کا دارالحکومت تھا اور رہے گا ۔میں کیا دیکھتا ہوں عالمی میڈیا اس مارچ کو پاکستان کے عوام کی فلسطین سے یکجہتی بتاتا ہے۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ نہ تو کوئی پہیہ جام ہوتا ہے اور نہ ہی شہر مفلوج ہوتا ہے اگر ہوتا ہے تو مفلوج ذہن کا شکار لوگوں کا منہ بند ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ دیوانے جب بلاؤ دوڑے چلے آتے ہیں فلسطین کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا برما کا مسئلہ ہو یا شام یہ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر جمع ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ پتہ ہے کیوں ؟کیونکہ یہ اللّٰہ کے ہاں جواب دہی کا خوف رکھتے ہیں کہ اللّٰہ پوچھے گا کہ امت مشکل میں تھی تو تم نے کیا کیا۔ تو یہ کہیں گے اے رب کریم باری تعالیٰ ہمارے بس میں جو تھا وہ ہم نے کیا میرے رب تو گواہ ہے جب جب امت کو تکلیف پہنچی ہم سراپا احتجاج بنے لیکن یہ چند فتنہ پرست کیا منہ دکھائیں گے اپنے رب کو !!کبھی سوچا ہے انہوں نے ۔یا لا دین ہو چکے ہیں، لیکن میں جب دیکھتا ہوں کہ سیاسی مقاصد کے لیے مہینوں سڑکوں پر بیٹھنے والے اب بھی سیاست میں مصروف ہیں۔کسی نے بھی قبلہ اوّل کی پکار نہ سنی عمران خان ہو یا نواز شریف ،زرداری،مصطفی کمال یا فاروق ستار سب منہ کو سلائی لگائے کرسی کرسی کرتے نظر آئے لیکن اس دوران امت کا درد لیے سراج الحق شہر کراچی میں لبیک یا قدس ۔لبیک یا اقصیٰ ۔لبیک یا قبلہ اول۔ لبیک یا سرزمین انبیاء کا نعرہ لگاتا دکھائی دیا لیکن نہ دکھا تو کوئی انسانیت کا مسیحا نہ اٹھا۔ ارے تمہیں ہزاروں فلسطینی شہریوں کے لاشوں کو دیکھ کیوں انسانیت یاد نہیں آتی؟ ارے تمہیں شام و برما کی قتل و غارتگری دیکھ کیوں انسانیت نہیں یاد آتی۔
مجھے معلوم ہے کیوں نہیں آتی کیونکہ تمہیں مسئلہ اسلام سے ہے ۔یہی اگر کفر کا پرچار کرنے والے ہوتے تو تمہاری چیخیں نکل آتیں۔ ہائے ظلم ہائے ظلم لیکن وہیں میں دیکھتا ہوں کے اسی سید کی فکر والے حماس کی صورت فلسطین میں یہودیوں کو جہنم واصل کرنے کے لیے اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لیے صفیں باندھ لیتے ہیں ۔نوجوان تو نوجوان بزرگ خواتین و معذور فلسطینی حماس کا پرچم اٹھائے اسرائیلی فوج کو للکارتے ہیں اور اپنے قبلہ اول کے لیے لڑ جاتے ہیں لیکن اسی دوران میں کیا دیکھتا ہوں کے وہ امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کی افواج سے مدد مانگتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر یہ نعرہ بلند کرتے ہیں :اے امت مسلمہ کی فوج! اے پاکستان کی فوج! ہماری مدد فرما ۔لیکن میں نے یہ بھی دیکھا کہ یہاں سے مذمتی بیان تک نہ گیا۔ اے رب کریم ان کی مدد و نصرت فرما اور ہمارے سے جو بن پڑا ہم نے کیا اسے قبول فرما اور امت مسلمہ کو یہ فیصلہ کرنے کی توفیق دے کے ان کے حقیقی نمائندے کون ہیں اور دشمن کون۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں