سورة الشمس میں بہت سی قسمیں کھانے کے بعد اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ”کامیاب ہوا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نا مراد ہوا وہ جس نے اسے دبا دیا۔“
تزکیہ زکوٰة سے ہے جس سے مراد پاک کرنے کے ہیں، جس طرح زکوٰة مال کو پاک کردیتی ہے اور اسکا میل کچیل دور کردیتی ہے، اسی طرح نفس کا تزکیہ نفس کو پاک کرکے خاص اللہ کے تابع کردیتا ہے۔
نفس کو پاک کرنےکے لئے خراب نفس کی وجوہات جاننا ضروری ہیں۔ دراصل خراب نفس کی ایک سب سے بڑی وجہ ”حُبّ دنیا یا خواہشات ہے“۔ درحقیقت عقل مندی یہی ہے کہ دنیا سے دستبردارہ ہوا جائے اس سے پہلے کے دنیا آپ سے دستبردار ہو جائے۔
اس سب کے بعد یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ جب خواہشات کی پیروی لازماً نفس میں خرابیاں ہی پیدا کرتی ہے تو انہیں بلکل حرام کیوں نہیں کردیا گیا؟ نفس میں خرابی کی باعث دراصل وہ خواہشات پرستی ہے جو حلال و حرام کی تمیز نہ رہنے دےکیونکہ دنیا کی محبت وہ اندھی محبت ہے جو مقصد حیات کو نظروں سے اوجھل کردیتی ہے۔
انسان کی فلاح جانتے ہیں کس میں ہے؟ انسان کی فلاح خواہشات کو دبانے میں ہےکیونکہ یہ خواہشات ہی ہیں جو ہر اُس چیز کے لۓ آمادہ کرتی ہیں جو آپ نے زندگی میں کبھی کرنے کا سوچا تک نہیں ہوتا۔ان کے پیچھے انسان صحیح اور غلط کی پہچان کھو دیتا ہے، ان کے حصول کے لۓ بندہ انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بھی نہیں چوکتا۔ وہ ہر وہ کام کرتا ہے، ہر وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو اسے اس خواہش کی تکمیل تک لے جاۓ، اور پھر اسکو” گناہ“ گناہ نہیں لگتا، ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے ہزار دلائل آموجود ہوتے ہیں۔
نتیجتاً بندہ خالق اور مخلوق دونوں کے سامنے زلیل و خوار ہوجاتا ہے۔”ضروریات“ اور”خواہشات“میں فرق کریں۔ دونوں چیزوں کےلئے توکل اللہ پر ہی ہوگا، مگر ضروریات کے لئے اسباب پیدا کرنے کے بعد اللہ پر توکل کرنا ہے، اور خواہشات محض اللہ کے سامنے بیان کردیں خود کو ان کے پیچھے ناں تھکائیں رب بہتر سمجھے گا تو راستے وہاں سے بنادے گا جہاں سے گمان بھی نہیں ہوگا اوراگر نہیں تو آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔