قرآن مبین شاہراہ فلاح طے کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ اس سفر میں تمہارا زادراہ عشق رسول ہوگا ۔دوسرے الفاظ میں اتباع رسول کا راستہ ہی دراصل فلاح کا راستہ ہے جو بندے کو خدا سے ملاتا ہے اور انسان خالق کائنات کا صرف محب نہیں محبوب بن جاتا ہے۔اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری (رسول خدا کی) پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
یعنی الہی محبت جتانے کا بلکہ اس سے بڑھ کربذات خود یہ محبت ورضا پانےکا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہیں رسول خدا۔رسول خدا کے ذریعے کیسے محبت رب کی محبت حاصل کی جاسکتی ہے اس انداز اور طریقہ کی بھی اسی آیت میں وضاحت کر دی گئی اور وہ ہے اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
قرآن حکیم مومنین کے رسول اللہ سے تعلق کو کبھی ایمان و اطاعت سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اتباع سے۔ اول الذکر تو ایمان کے لئے لازم و ملزوم ہے مگر دوسری چیز اتباع اعلی مرتبت کی حامل ہے۔ مذکورہ آیت میں اسی کو عشق حقیقی تک پہنچنے کی ترکیب کے طور پر بتایا گیاہے۔
لہذا اس ترکیب کو سمجھنا ضروری ہے۔ دراصل اطاعت وہ چیز ہے جس میں حکم شامل ہے مگر اتباع اس سے بلند تر درجہ ہے جس میں نقش پا کی پیروی شامل ہے جو حکم کی قید سے ماوراء ہے۔ اس اتباع کی عظیم مثالیں صحابہ کرام کی زندگیوں سے ملتی ہیں جن نے ثابت کردیا کہ نبی کے بعد وہ اعلیٰ ترین ہستیاں ہیں جو نبی کے ہم مجلس بنے جو رہتی دنیا تک کے لئے محبت اور عشق رسول کا عظیم استعارہ بنے جن نے بتا دیا کہ رسول کا اپنے امتیوں پر کیا حق ہے اور امتی اس حق کو کیسے ادا کریں گے۔ جن کے انداز کلام اور رہن سہن سے عشق رسول کے پھول نچھاور ہوتے جو کردار میں اپنے ہادی کے پرتو بنے جن نے بتا دیا کہ محبت رسول کا تقاضا عملی انقلاب ہے اور اس کا اظہار کیسے عمل کے زریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔
شمع ہدایت کے ان پروانوں کا عشق اور اتباع رسول مشعل راہ ہے ان کے لئے جو روز قیامت ان ہی کی قطار میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں اور انہی کے ساتھ اپنا انجام چاہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں بات یہ ہے کہ محبت رسول کے اظہار کا طریقہ صحابہ کرام کی زندگیوں سے ہی سیکھا جا سکتا ہے۔
مومنین ذرا اس آئینے میں اپنے دعویٰ عشق کو جانچ لیں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور کس چیز کو عشق رسول سمجھ رہے ہیں؟تعصب سے بالاتر ہو کر سوچیں تو یہ بات واضح ہو جائے کہ موجودہ دور میں جن اقدامات کو عشق رسول سے جوڑ دیا گیا ہے ان کا عملی ایمان سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن شیطان نے اعمال کو مزین کر کے بدعات پر عشق رسول کی ایسی ملمع سازی کی کہ کوئی گہرائی میں جا کر عشق رسول کا حقیقی ادراک کرنا ہی نہیں چاہتا،بس ظاہری ڈھونگ کو ہی سچی محبت سمجھ کر اکتفاء کر لیا ہے۔
جشن آمد رسول منانے کے حقدار تو وہ ہیں جن کی زندگیاں سنت رسول سے مزین ہیں جو ہمہ وقت اسوہ حسنہ کی پیروی کے لئے کوشاں رہتے ہوں کہ انہی کی زندگیوں پر تو رحمت للعالمین کا عکس مبارک پڑا اور وہ ظلمتوں کی تاریکیوں سے نکل کر سنت کی روشنی سے منور ہوئے،رہے اس عظیم اسوہ سے عاری لوگ تو وہ کس منہ سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ،نہ کبھی سنت کو جانا ،نہ کبھی اسوہ رسول کی ہوا لگی نہ وہ نبی الرحمہ کی رحمت بھری زندگی سے مستفید ہوئے،نہ اس نور کی پیروی کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ،وہ تو خود اپنے دعویٰ کی متضاد تصویر بنے ہوئے ہیں اور ان کانفاق ان کے رب سے چھپا نہیں ہے۔
محمد رسول اللہ کی بعثت مومنین پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے بندوں کو اپنے خالق سے ملا دیا۔مگر آج کے عاشقان رسول کا خدا سے تعلق اس دعویٰ کے پیچھے چھپی حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے خود ہی کافی ہے۔ نفرائض وواجبات کی پابندی،سنن کا احترام واہتمام ،حلال وحرام کی تمیز،مخلوق خدا سے تعلق سب کا جائزہ لیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ ان سب سے عاری ہو کر محض سال کے ایک مہینہ یا ایک دن کوئی محفل سجا لیں۔ پھر اس میں خواہشات نفس کی رنگینی کی ملاوٹ کرلیں اور رسول خدا کے چھوڑے ہوئے دین کو نئی بدعات و اختراعات سے کرپٹ کر کے ہم محب رسول کہلا سکیں گے۔
ان خرافات سے خود کو تو جھوٹی تسلی دے سکتے ہیں مگر رب کو دھوکہ نہیں دے سکتے اور اس روز کیا بنے گی جب رسول خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے اور وہ سوال کریں گے کہ میرے چھوڑے ہوئے دین کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ دین من مانی خواہشات کی پیروی کا نام نہیں ہے،نہ ہی دل کو لبھانے والی اور فکر و نظر کو بھانے والی ہر چیز نیکی ہے۔نیکی تو صرف وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے متعین کر دی اور صرف اسی کی پیروی میں ہماری فلاح مضمر ہے۔