انسانی معاشرے کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے اللہ نے اسلام کی صورت میں بہترین ضابطہ حیات اور قرآن کی صورت میں کامل دستور حیات نبی اکرم ﷺ کے ذریعے اپنی کامل ترین شکل میں عطا فرمایا۔
دین اسلام ایک کامل دین ہے، لفظ ”کمال“ اپنے اندر ترقی یافتہ ہونے کی معنویت رکھتا ہے اور اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ دین حق نے حیات انسانی کے تمام گوشوں کے لیے بنیادی خطوطِ ہدایت واضح کر دیے ہیں۔ اسلام کا یہ امتیاز محض مسلمانوں کے قلوب واذہان میں ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی تسلیم شدہ ہے، چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓسے ایک مرتبہ ایک یہودی عالم نے کہا، ”امیر المو منین! آپ کی کتاب (قرآن حکیم) میں ایک آیت ہے جس کو آپ حضرات پڑھتے ہیں، اگر وہ ہم یہود پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دے دیتے“۔
حضرت عمرؓ نے دریافت کیا، ”کونسی آیت؟“ تو انہوں نے آیت پڑھی،”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“۔(سورة المائدة: 5، آیت: 3) یہ آیت مبارکہ دین اسلام کے مکمل کیے جانے، نعمت خداوندی کے تمام کیے جانے اور اسلام کے بطور دین پسند کیے جانے کا اعلان خداوندی ہے۔ جس سے گزشتہ امتوں میں سے کسی کو بھی سرفراز نہیں کیا گیا“۔
جس قدر کامل دین، دین اسلام ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے اسی قدر کامل ترین نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ حضوراکرمﷺ بحیثیت داعی اعظم، لیڈر، سیاست دان، مدبرومنتظم، بحیثیت سپہ سالار، ماہر نفسیات، صادق امین تاجر، معلم انسانیت، بحیثیت منصف، مشفق والد و شوہر، بحیثیت مصلح اعظم اور بحیثیت نبی بے مثل شاہکار ہیں۔
یہ دین اسلام کا امتیاز اور نبی اکرم ﷺ کی ذات کا کمال ہے کہ ریاست مدینہ کے ذریعے ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لایا گیا جو رہتی دنیا تک انسانی معاشرے کی سماجی اور معاشرتی ضروریات پوری کرتا رہے گا۔ مکے کی گلیوں اور طائف کی تبلیغ سے شروع ہونے والا یہ سفر اگرچہ کئی طرح کی اذیتوں، جنگ و قتال اور صعوبتوں سے لبریز تھا لیکن بعد از تمام تکلیف دہ مراحل ایک ایسا سماجی نظام وجود میں آیا جس میں عدل و انصاف کا دور دورہ تھا، جس میں قانون کا عملا ًنفاذ تھا، دین کی حاکمیت تھی، الغرض نبی اکرم ﷺ نے اپنی سیاسی بصیرت اور مثالی طرز حکمرانی سے قبائل میں بٹی ہوئی قوم اور بکھرے ہوئے یثرب کو اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کردیا۔ نبی اکرم ﷺ کی ترقی پسند سوچ اور شخصیت تھی کہ ہجرت کے بعد انہوں نے تمام تر توجہ مدینہ کو ایک آئینی ریاست میں تبدیل کرنے پر صرف کی اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک منظم، ترقی پسند اور دینی وحدت پر قائم معاشرہ تشکیل دیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ مذہبی تعصبات کو ختم کرکے ایک اسلامی فلاحی ریاست قائم کی اور حاکم و امیر کا نیا تصور قائم کیا اور فرمایا، ”قوم کا سربراہ اس کا خادم ہوتا ہے“۔ اس بے مثال وبے نظیرنظام کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔
ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین کو کئی طرح کے دیگر مسائل کے ساتھ بے سرو سامانی کا بھی سامنا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے معاشی مسائل کے حل کے لیے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنادیا اور انصار مدینہ نے مہاجرین کو اپنے گھر، زمین ، کاروبار میں حصے دار بنالیا اور ایک دوسرے کے لیے کئی قربانیاں دے کر معاشرے میں موجود طبقاتی و معاشی فرق کو یکسر ختم کردیا۔ انصار و مہاجرین کے درمیان اس بھائی چارے کو مواخات مدینہ کا نام دیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس حکمت عملی سے معاشرے میں قرض حسنہ کا رواج قائم کیا، سالوں سے رائج یہودیوں کا سود پر قرض لین دین کے نظام اور غربت و تنگدستی کا خاتمہ کرکے مستحکم معاشرے کی مثال قائم کی۔
نبی اکرم ﷺ نے انصار مدینہ کے دو قبائل اوس و خزرج کے ساتھ یہودی قبائل اور ارد گرد کے دیگر قبیلوں کو ملاکر ایک ریاستی نظام قائم کیا۔ ان تمام قبائل کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا جو میثاقِ مدینہ کہلاتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے جو 622ءمیں ہوا جس میں ایک غیر قوم نے نبی اکرم ﷺ کی قیادت کو قبول کیا۔ اس میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس معاہدے کی رو سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کاربند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل تھا۔ اس کے ذریعے ریاست میں امن قائم ہوا، انسانی جان و مال محفوظ ہوگئے۔ جزا و سزا کے عمل سے ارتکاب جرم میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی۔ اس حکمت عملی سے اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے محفوظ کرلیا گیا۔
معاشی نظام کے قیام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پرمشتمل خطے کو وحدت قرار دے کر اس میں رہنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا اور ان کو شہری حیثیت دے دی گئی۔ اس کے ساتھ یہ تدبیر بھی اختیار فرمائی کہ جو فرد یا گروہ مسلمان ہوکر مدینہ ہجرت کرنا چاہے تو وہ اپنے خاندان یا قبیلے کے ساتھ مدینے کی جانب ہجرت کرسکتا ہے اس طرح مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوا اور مدینہ میں ان کی پوزیشن مستحکم ہوتی چلی گئی۔
مدینہ کی خارجہ پالیسی کے لیے یہ اصول اپنایا گیا کہ ہر حال میں امن و امان کو فوقیت دی جائے اگر کوئی شر پسند حد سے تجاوز کرجائے اور امن کی راہ میں حائل میں ہو تو بقدر ضرورت جوابی کارروائی کی جائے۔ ریاست مدینہ میں قانون کے تقاضوں کو پورا کرنا اور عدل و انصاف کی فراہمی اولین نصب العین تھا۔ بنا کسی رنگ، نسل اور قوم کے امتیاز کے ہر ایک کے لیے مساوی قانونی نظام رائج تھا۔ نبی اکرم ﷺ چاہے تجا رتی معاملات ہوں یا دیگر ریاستی انتظامات ان کا احتساب خود لیا کرتے۔ معاشرتی اصلاحات پر عمل کرواتے، عمال پر کڑی نگاہ رکھتے اور شکایت کی صورت میں فوری تحقیقات کرواتے۔ مجرم کو سزا سنائی جاتی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہ برتی جاتی۔
نبی اکرم ﷺ نے مدینہ میں دیگر کئی معاملات کے ساتھ تعلیم کو بھی بہت اہمیت دی۔ ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو معلم بنا کر مدینہ منورہ بھیج دیا گیا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی کا قیام عمل میں آیا تو درس گاہ صفہ کی بنیاد رکھی گئی۔ صحابہ کرام ؓ کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں، ہر شخص کے لیے فنون اور جنگ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا یہاں تک کہ خواتین کو بھی گھریلو دستکاری اور علاج معالجے کے طریقے سکھائے گئے۔
الغرض تاریخ میں پہلی بار عرب کے بدو قبیلے نبی اکرمﷺ کے زیرقیادت متحد ہوئے اور خدا کی وحدانیت کا پیغام لیے پوری دنیا پر چھا گئے ان کی ایمانی قوت کے جواہر کی درخشندگی آج بھی روزِ اول کی طرح تاباں و فروزاں ہے۔ہمارے حکمران بھی اگر ان زریں اصولوں کو اپنا لیں تو وہ وقت دور نہیں جب ملک پاکستان مدینہ ثانی بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا اور باطل قوتوں کو سرنگوں کردے گا۔