پری زاد

دروازے کی کنڈی کھولتے ہوئے اس نے لمحے بھر کو پلٹ کر صحن کے پار نگاہ ڈالی،اس کی  غلافی آنکھوں  میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے، لیکن اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا اسے جانا تھا( دیکھنے والوں کا دل اس کے لیے غم سے بھر گیا)

ایسا کر  واپس چلی جا، اس نے مشورہ سنتے ہی رد کر دیا، اگر واپس جانا  ہوتا تو  گھر چھوڑ کے آتا ہی نہیں (ہے بیچاری، دیکھنے والوں نے ایک دم اس کے لیے ہمدردی محسوس کی )۔ آج سے تمہارا نام دلاور ہے ، گرو نے اسے نیا نام دیا تو اسے لگا کہ اسے نئی زندگی مل گئی ہے، اس کے چہرے پہ ایک بار پھر  سے آنسو بہنے لگے لیکن اس بار چہرے پہ غم کی جگہ خوشی کے تاثرات تھے( دیکھنے والوں نے اس کی  لیے دلی اطمنان محسوس کیا ) ۔  اماں ابا میری شادی کرنا چاہتے تھے ، میرے اندر کا مرد بھلا کسی مرد کی حاکمیت کیسے برداشت کرتا( ٹھیک ہی کہا بے چاری نے ، ناظر کے دل نے گواہی دی )۔ یہ ڈرامہ پری زاد  کے چند مناظر ہیں جو ایک مشہور نجی ٹی وی چینل پہ آج کل نشر ہو رہا ہے ۔

ڈرامے کے بارے میں معلومات رکھنے والے افراد یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ ڈرامے کی مرکزی کہانی کے ساتھ ساتھ ایک سائڈ اسٹوری چلائی جاتی ہے جس کا مقصد کسی خاص نظرئیے یا تصور کے بارے میں ذہن سازی کرنا ہوتا ہے، ڈرامہ سیریل پری زاد میں ببلی کا کردار بھی دراصل اسی طرح کی ایک اہم سائیڈ اسٹوری ہے، آج سے چند ماہ قبل معروف سماجی ویب سائٹ سے منسلک ایک  یوٹیوب چینل  پہ ایک ایسی ہی لڑکی کا انٹرویو نشر کیا گیا جو کہ پیدائشی طور پہ لڑکا تھا لیکن  مستقل بہنوں کے درمیان رہ کر اسے خود بھی لڑکی بننا پسند تھا، اس انٹرویو میں بھی سوال جواب اور پوری کہانی اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ناظر اس طرح کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دل میں محبت اور ہمدردی کے جذبات محسوس کرے ۔

یہ پہلا پتھر ہے جو پھینک کے اندزہ لگایا جائے گا کہ ارتعاش کس حد تک پیدا ہو گا، اس کے بعد ان تصورات کو قابلِ قبول بنانے کے لیے ایک کے بعد ایک ڈرامے اس طرح سے  پیش کیے جائیں گے ہم جیسے لوگ سوچتے ہی رہ جائیں گے کہ تنقید کس پہ کی جائے اور کس کو جانے دیا جائے، نتیجتاً ہمارا معاشرہ کس طرف جائے گا اس کا تصور کرنا کچھ مشکل نہیں ۔

یاد رہے مذکورہ بالا دونوں باتیں  ایسے افراد سے متعلق نہیں ہیں جنہیں تیسری جنس کا انسان کہا جاتا ہے  بلکہ یہ ایسے افراد کی کہانی ہے جو جسمانی طور پر مکمل مرد یا مکمل عورت ہیں لیکن جذباتی طور پہ اس کے برعکس محسوس کرتے ہیں ۔  چند ہی روز  سپر مین، بیٹ مین جیسے مشہور کرداروں کے خالق  میگزین قبل ڈی سی کامکس  نے اعلان کیا ہے کہا ہے کہ اگلے ماہ آنے والی کامکس میں سپر مین کو بائی سیکشوئل دکھایا جائے گا، یعنی ایسا انسان جسے دونوں میں  رومانوی کشش محسوس ہوتی ہے ۔

سی این این کی ویب سائٹ پہ  12 اکتوبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق  جب جوناتھن کینٹ، نیا سپرمین، اگلے مہینے کے ’’ سپرمین: سن ایل آف ایل ‘‘ کے شمارے میں بائی سیکشوئل کے طور پر سامنے آئے گا، تو وہ پہلا کوئیر سپر ہیرو نہیں ہوگا۔ لیکن وہ سب سے زیادہ دیکھے جانے والوں  میں سے  ضرور ہوگا۔ اس طرح  جوناتھن جنسیت اور مردانگی کے بارے میں دقیانوسی تصورات سے انکار کرتا ہے جس نے کرداروں اور سپر ہیرو کی صنف کو نسلوں تک تشکیل دیا ہے۔”

سی این این کی خبر میں مزید لکھا تھا کہ “ایک بائی سیکشوئل سپرمین LGBTQ نمائندگی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ کس طرح یہ تسلیم کرنا کہ متفرق جنسیت کے علاوہ اور بھی آپشنز،ہیں۔ وہ نیکی ، مردانگی اور empowermentکے بارے میں سپر ہیرو کے تصورات کو تبدیل کر سکتے ہیں۔”

ہالی ووڈ پہ نے واضح طور پہ اس معاملے  کو “انسانیت کے وسیع تر مفاد میں اپنا موضوع بنا یا ہواہے”  ، ہونا تو یہ چاہیئے تھا  کہ اس فتنے کا ادراک کرتے ہوئے ہمارے ادارے ایسی پروگرام اور ڈراموں  پہ کام کرتے جن میں ان نظریات کی نفی کی جاتی ، لیکن  ہمارے اپنے چینلز پہ  اس سلسلے میں سائڈ اسٹوری کے طور پہ  باقاعدہ  کام شروع ہو چکا ہے ۔

  اس ضمن میں سب سے اہم سوال پیمرا کی مجرمانہ خاموشی ہے ، سوال یہ ہے کہ پیمرا کے اراکین کیا واقعی ٹی وی سے نشر ہونے والے تمام مواد کی اچھی طرح جانچ کرتے ہیں؟ کیا اس طرح کے موضوعات حقیقتاً ان کی نظروں سے گزرے بنا اتنے آرام سے نشر ہو جاتے ہیں ؟  یا پھر یہ سمجھا جائے کہ حکومت اس  مواد کے نشر کرنے میں خاموش رضامندی دے چکی ہے؟

کیا ہمارے ارباب ِ اختیار اس بات سے واقعی ناواقف ہیں اور ان کی کم علمی کا یہ عالم ہے کہ انہیں میڈیا جیسے ہتھیار کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے؟ اسی دنیا میں ایسے ممالک بھی موجود ہیں جو اپنے سماجی مسائل کے حل کے لیے عوام کی اصلاح کا ذریعہ ڈراموں کو بناتے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ  کیا یہ مدینے جیسی ریاست کا میڈیا ہے؟

 معاشرے کے تمام فکری طبقات کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے ، خصوصاً والدین اور اساتذہ کو اس حوالے سے فوری لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے ، وہ تمام باتیں جن پہ اب تک بچوں سے تبادلہ خیال کرنے میں جھجھک مانع رہی ہے ،اب انہیں مناسب  پیرائے میں ان کی عمر کی مناسبت سے پہنچانا بہر حال وقت کی اہم ضرورت ہے، ارباب اقتدار کے ہوش میں آنے اور اقدامات کرنے کے انتظار میں اپنی نسلوں کے ذہنوں کو آلودہ ہونے کے چھوڑنا ہرگز عقلمندی نہ ہو گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب پیمرا جیسے اداروں کا قبلہ درست کرنے کی کوشش کی جائے تو دوسری طرف نئی نسلوں کو اس حوالے سے درست رہنمائی دینے کا بیڑہ اٹھایا جائے۔