سفید اور گلابی رنگوں کے امتزاج سے سجی چھت اور اس پر لٹکتے نفیس فانوس حنا بینکوئیٹ کی خوبصورتی بیان کررہے تھے۔ ہال کے درمیان میں اسٹیج اور اسٹیج کے پیچھے فل سائز ایل ای ڈی نصب تھی۔ اسٹیج پر دو ڈائس رکھے تھے اور تین سیڑھیاں اتر کر اطراف کو سفید اور نیلے غباروں سے سجایا گیا تھا۔ یہ باوقار اور پرُرونق محفل “حجاب گالا” کی ابتدا تھی۔ اس محفل کا انعقاد اور اس کی سجاوٹ نہ صرف میزبان کے عمدہ ذوق بلکہ فکری سطح کی نشاندہی بھی کر رہی تھی۔
یہ محفل بےحیائی و بےحجابی سے ماحول میں پیدا ہوتے بگاڑ کی روک تھام کے لیے جماعت اسلامی کی جے آئی یوتھ ویمن ونگ ضلع ائیر پورٹ کی جانب سے سجائی گئی تھی۔ محفل کی ابتدا قرآن کی تلاوت سے ہوئی اور پھر مختلف کھیل اور مقابلے شروع ہوئے۔ایک بڑی تعداد میں نوجوان یوتھ نے ان کھیلوں اور مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ سب سے پہلے Mock show شروع ہوا۔ پھر win at the sopt games جس میں کچھ بچیوں میں حجاب پہننے کا مقابلہ ہوا۔ جس بچی نے سب سے پہلے اسکارف پہنا اسے انعام سے نوازا گیا اور باقی باترتیب فیصلہ ہوا۔ بلاشبہ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کھیل تھا۔
ان کھیلوں کے بعد امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن صاحب نے بذریعہ ویڈیو اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ پروگرام میں اپنی مصروفیت کی بنا پر شرکت نہیں کرسکے تھے۔ جس وقت جماعت اسلامی کی خواتین حجاب پر تربیت گاہ سجائے بیٹھی تھیں اس وقت وہ “ری بلڈ کراچی کانفرنس” سے کراچی کے مسائل پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ اور دیگر شہری مسائل اور ان کے حل پرخطاب کررہے تھے۔ اپنی مصروفیت کے باوجود انہوں نے حجاب گالا میں حجاب کے موضوع پر گفتگو کی۔ وہ فکر مند تھے کہ” معاشرے میں اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کو سمجھنے کے لیے آئیڈیل پوزیشن قرآن کو سمجھنا ہے۔” ان کا کہنا تھا “ہمارے ڈراموں میں رشتوں کے تقدس کو بےدردی سے پامال کیا جارہا ہے”۔
انہیں مسلمان خواتین اور یوتھ سے بےتحاشہ امیدیں تھیں جو ان کے لفظوں سے ظاہر ہورہی تھیں۔ وہ اخلاقی ڈسپلن قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ خاندان مضبوط اور پاکیزہ رہیں اور ہمارا معاشرہ مغرب کی طرح تباہ حال نا ہو۔ پھر اس کے بعد quiz competition کا سلسلہ چلا جس میں اسلامی ، معلوماتی اور پھر مزاح سے متعلق سوالات کیے گئے۔ یوتھ کے IQ test کے حوالے سے یہ ایک بہترین کھیل ہے۔ جس میں ہم نہ صرف بچوں اور نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے جوڑے رکھتے ہیں بلکہ ان کی یادداشت کا بھی فوقتاً فوقتاً امتحان ہوتا رہتا ہے۔ پروگرام بارہ بجے شروع ہوچکا تھا اور اب ظہر کا وقت تھا۔ پروگرام میں رونق کے لیے یوتھ نے مختلف اسٹالز سجائے تھے۔ ایک جانب چھولے چاٹ تو دوسری جانب رول سموسے اور چٹ پٹی بریانی۔ جوس اور چائے کا بھی انتظام تھا۔ ایک اسٹال میں گرین ٹی، مصالحہ جات اور دیگر ضروری اشیاء موجود تھیں۔ ہال کی دیواروں کو Art competition میں حصہ لینے والوں کے شاہکاروں سے سجایا گیا تھا۔ پینٹنگ کا موضوع تھا ” حجاب ایک نظریہ ایک رویہ ایک فکر” مزے کی بات یہ کہ جس بڑی تعداد میں بچیوں نے آرٹ مقابلے میں حصہ لے کر اپنے رنگوں اور قلم کی مہارت سے حجاب کی افادیت بیان کرنے کی کوشش کی وہ قابل تعریف تھی۔ جیسے جیسے وقت گزررہا ہے زمانہ جاہلیت کی چالیں مٹتی جارہی ہیں۔ خواتین بڑی تعداد میں حجاب سے منسلک ہورہی ہیں اور اسی کو اپنے لیے آزادی اور ترقی کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں۔
اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی میڈیا سے منسلک خواتین کو جاتا ہے۔ جو ہر مثبت پیغام کو بڑی تندہی کے ساتھ سوشل میڈیا میں پھیلاتی ہیں۔ کہتے ہیں صراط مستقیم ( درست سمت) ہر شے کے معنی بدل دیتی ہے۔ اور جس طرح ضلع ائیر پورٹ کی میڈیا ٹیم سعدیہ شارق اور خدیجہ برجیس اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے بچوں کی بھی بذریعہ میڈیا تربیت کررہی ہیں وہ قابل ستائش ہے۔
ہال میں ایک جانب دیوار پر فل سائز کاغز چسپاں تھا جس میں مہمانوں کو اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی دی گئی۔ وہ دیوار تک جاتے اور کاغز پر اپنی رائے مع اپنے نام کے لکھ کر پرسکون ہوجاتے۔ کھانے پینے اور نماز کا سلسلہ تھما تو Debate Compition شروع ہوا۔ یہ بحث مباحثہ چھ لڑکیوں کے گروپ پر مشتمل تھا جن میں تین حجاب کے حق میں اور تین حجاب کے خلاف تھیں۔ ان کا موضوع تھا “حجاب نے بخشی عورت کو آزادی”۔ اسٹیج پر دائیں طرف کے ڈائس کے ساتھ تین کرسیاں اور بائیں طرف کے ڈائس کے نزدیک تین کرسیاں رکھی گئیں۔
اب باری باری ایک ایک طرف کی لڑکی آتی اور حجاب کے حق اور حجاب کی مخالفت میں تقریر کرتی۔ ان کی تقریروں نے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ مخالف لڑکی اپنے دلائل دیتی اور حمایت میں لڑکی اپنے مضبوط فیصلوں سے اسے رد کردیتی۔ دونوں طرف پُرزور تکرار چلتی رہی اور آخر میں صدر مجلس ناظمہ کراچی اسما سفیر نے شرکاء سے رائے لی۔ گویا فیصلہ باشعور خواتین پر چھوڑا اور شرکا نے “حجاب نے بخشی عورت کو آزادی” پر متفقہ طور پر رائے دی اور سب کی موجودگی میں اس قرارداد کو منظور کیا گیا۔
اب مرحلہ تھا ڈیبیٹ اور آرٹ مقابلے میں حصہ لینے والوں میں اول، دوم ،اور سوم کے انتخابات کا۔ سب دل تھامے متوجہ تھے اور سچی بات تو یہ تھی کہ ہر ایک نے اتنا شاندار مظاہرہ کیا تھا کے کسی بھی ایک کا انتخاب مشکل مرحلہ تھا۔ پھر بھی فیصلہ ناگزیر تھا۔ کافی سوچ و بچار کے بعد ڈیبیٹ میں اول انعام کی حقدار نمرہ کنول۔ دوم حریم اقبال اور سوم خنساء کو ٹہرایا گیا۔ جبکہ آرٹ مقابلے میں انعام یافتہ جنیتا جاوید، دوم عمل عروج اور سوم وردہ جاوید تھیں۔ وردہ جاوید کی خاصیت یہ تھی کہ وہ تمام یوتھ میں سب سے کم عمر اور تیرہ سال کی بچی تھی۔ اس کی اتنی بڑی کامیابی اس کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
اور اس طرح یہ خوبصورت محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ بہت سے لوگوں کی رائے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جماعت اسلامی واقعی اپنی نوعیت کی ایک منفرد جماعت ہے جو اپنی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں کو نکھارتی رہتی ہے۔ جماعت اسلامی خود باصلاحیت لوگوں سے سجی ہے۔ جس میں ضلع ائیر پورٹ کے ایڈمن اطہر بلال سید جیسے تخلیقی لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنی ذہانت سے ایسے کام کروائے جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کسی نے نہیں سوچے۔
انہوں نے آن لائن مقابلوں کا انعقاد کیا، یوتھ کے لیے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا ٹریننگ کروائی۔ حجاب گالا کے موضوع سے کامیاب محفل سجائی جس میں مختلف کھیل اور مقابلوں کو رکھا۔ دراصل جماعت اسلامی دو حصوں پر مشتمل کام کرتی ہے۔ ایک حصہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنے کام کا جائزہ لیتا ہے اور اسے مزید بہتر بنانے کے لیے باہم مشورہ کرتا ہے اور دوسرا حصہ پہلے حصے والوں کے مقصد کو عام باشندوں تک پیش کرتا ہے۔ یہ جماعت بغیر کسی غرض اور لالچ کے اللہ کے دین کی سربلندی اسلام کی بقا اور مسلمانوں کی آزادی کی خاطر اپنے جان و مال اور سب سے قیمتی چیز “وقت” کو عوام کے لیے وقف کرچکی ہے۔ اگر ان سے ان کی غرض پوچھی جائے تو معصومانہ جواب ملتا ہے۔
“اللہ تعالی بہت قدردان ہیں وہ ہماری سعی اور جدوجہد سے خوش ہوں گے۔” گویا اللہ کی رضا اس کی خوشنودی ہی ان کا ہدف ہے۔ اللہ ان سب کا حامی و ناصر ہو۔