اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پاک بیویاں امت کی انتہائی قابل احترام مائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی یہ شان بیان فرمائی ہے کہ یہ امت کی مائیں ہیں، یہ دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔ ان سے محبت اور ان کا دل سے احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ازواج مطہرات کی زندگی صبر و رضا ، ایثار اور ثابت قدمی کا نمونہ ہے۔ اس سے مسلمان بچیاں بہت کچھ سبق سیکھ سکتی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پوری امت بلکہ تمام انسانوں کے لئے ازدواجی زندگی کا بہترین نمونہ تھے۔ آپ ؐ کی سیرت کا یہ پہلو ہماری رہ نمائی کرتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھرمیں خوش رہتے۔ آپ ؐ کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی۔ جب گھر تشریف لاتے تو سلام کرتے اور جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو سلام کرتے۔ گھر کے کام میں حصہ لیتے۔ حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر میںہوتے تو آپؐ کا کیا حال ہوتا؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: آپؐ سب سے زیادہ نرم مسکرانے والے تھے اور آپؐ کے مبارک چہرے پر خوشی ہوتی۔
ان پاک بیویوں کے حوالے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر میں کیسی زندگی گزارتے تھے۔
اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
حضرت خدیجہ ؓ کا تعلق قریش کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جس میں عصمت و عفت، پاکیزگی، اخلاق و خوش خلقی اور نیک عادات و اطوار پائے جاتے تھے۔ آپ کا گھرانہ مکہ کے کھاتے پیتے گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ اور جس کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔
آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ کا نام فاطمہ بنت زائیدہ تھا۔ آپ کا نسب پانچویں پشت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا تھا۔ نسبی اعتبار سے آپ تمام امہات المومنین میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سب سے زیادہ قریب تھیں۔
آپ کی پیدائش ۵۵۶ء میں ہوئی۔آپ کے والد کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ بڑے معزز اور صاحب ثروت تھے۔ چونکہ تجارت پیشہ تھے اس لئے گھر میں ہر طرح کا عیش و آرام مہیا تھا۔
آپ بڑی پاکباز، عفت و عصمت والی بیوی تھیں ۔ اس لئے آپ کا لقب ’’طاہرہ‘‘ تھا۔ خوش خلقی، شرافت، نیک اطوار اور پاک دامنی کی وجہ سے قبیلہ قریش کی عورتوں کی سردار کہلاتی تھیں۔ خاندانی عزت اور شرافت کے ساتھ ساتھ خوبصورتی ، حسن و جمال اور نہایت اچھی طبیعت اور اخلاق کی مالک تھیں۔
حضرت خدیجہ ؓ کے بھائیوں کا انتقال ہو چکا تھا صرف ایک بہن زندہ رہ گئی تھیں جن کا نام ہالا تھاوہ آپ کی وفات کے بعد تک زندہ رہیں۔
گھر میں تجارت ہوتی تھی۔ جب آپ کے والد کافی بوڑھے ہو گئے تو کاروبار تجارت سنبھالنے والا کوئی نہ تھا لہٰذا سارے کاوربار کی دیکھ بھال حضرت خدیجہؓ خود انجام دینے لگیں اور اس طرح اپنے بوڑھے والد کا ہاتھ بٹانے لگیں۔ والد کی وفات کے بعد تمام کاروبار اور دولت کی مالک بن گئیں اور مکہ کے بڑے بڑے تاجروں میں شمار ہونے لگیں۔ مال و دولت کی کثرت کاروبار کی نگرانی اور ترقی سے آپ کی طبیعت میں متانت اور سنجیدگی پیدا ہو گئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شادی کرنے سے قبل آپ دو مرتبہ بیوہ ہو چکی تھیں۔ آپ کی شادیاں ایک کے بعد دوسرے قریش کے دو معزز سرداروں سے ہوئیں مگر ہر شادی کے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد دونوں شوہر وفات پا گئے۔ لہٰذا طبیعت بجھی بجھی سی رہنے لگی تھی ۔ بہر حال کاروبار کی دیکھ بھال سے زندگی کے دن پورے کر رہی تھیں۔ اکثر خدا کے گھر کعبہ تشریف لے جاتیں اور یاد الٰہی میں مصروف رہ کر وقت گزارتیں۔
آپ مال تجارت مختلف لوگوں کو دے کر دوسرے شہروں کو بھیجتی تھیں بعض لوگ معاملے میں بددیانتی اور بدمعاملگی کرتے تھے، آپ کو کسی امانت دار شخص کی تلاش تھی۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت، دیانت اور امانت کا مکہ میں شہرہ تھا، خاندانی تعلق بھی تھا۔ لہٰذا حضرت خدیجہؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سامانِ تجارت دے کر شام کی طرف بھیجا جائے اور ان کی امانت و دیانت سے فائدہ اٹھایا جائے۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب کی بھی یہی مرضی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی سامان تجارت لے کر شام کی طرف جائیں اور کچھ کما کر لائیں۔ حضرت ابو طالب نے حضرت خدیجہؓ سے تذکرہ کیا انہوں نے حضرت ابو طالب کی تجویز قبول فرمائی۔
حضرت خدیجہؓ نے شام کے اس سفر میں اپنے غلام میسرہ کو بھی ساتھ کر دیا تھا اور تاکید کر دی تھی کہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہر طرح خیال رکھے، جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شام سے واپس آپ تو عام منافع سے زیادہ منافع کے ساتھ آئے۔
حضرت خدیجہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت ، امانت اور بہترین اوصاف کا چرچا تو سن رکھا تھا۔ میسرہ نے شام کے حالاتِ سفر آپ کر بیان کئے تو ان کو سن کر حضرت خدیجہؓ خیال فرمانے لگیں کہ مجھے اگر ان کی زوجیت کا شرف حاصل ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو؟ کیوں کہ انہیں اپنا کاروبار چلانے کے لئے ایک پاکیزہ اخلاق اور امین شوہر کی ضرورت تھی۔
دو مرتبہ بیوہ ہو چکی تھیں اور بڑے بڑے قریشی سرداروں کے نکاح کے پیغامات سے انکار کر چکی تھیں۔ دولت اور ثروت کی کوئی کمی نہ تھی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حالات و واقعات سے اپنے دل کو حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل کرنے کی طرف مائل پایا۔
اس وقت ان کی عمر تقریباً چالیس سال کے قریب تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تقریباً پچیس سال تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کون اور کس طرح کہے۔ یہ کام آپ کی ایک قریبی سہیلی بی بی نفیسہ نے انجام دیااور انہوں نے باقاعدہ شادی کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے دونوں چچائوں حضرت ابو طالب اور حضرت حمزہؓ سے تذکرہ کر کے ان سے مشورہ کیا۔ دونوں نے اس پیغام کو پسند فرمایا اور اس وقت کے رواج کے مطابق حضرت ابو طالبؓ نے خطبہ پڑھا اور اس طرح حضرت خدیجہؓ کا حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نکاح ہو گیا۔
ایک طرف حضرت خدیجہؓ ایک مال دار اور دولت مند بی بی تھیں۔ تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسے نہ تھے پھر عمر میں بھی خاصا فرق تھا۔ مگر حضرت خدیجہؓ نے ایک وفادار ، اطاعت گزار بیوی کا حق ادا کیا۔ شوہر کے آرام و راحت میں اپنے آرام و راحت کو قربان کر دیا اور ایک مثالی بیوی کی طرح اپنے حقوق و فرائض پوری طر ح ادا کرتی رہیں۔
حضرت خدیجہؓ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دو صاحبزادے اور چار صاحب زادیاں پیدا ہوئیں۔ دونوں صاحب زادے بچپن ہی میں انتقال کر گئے۔ صاحب زادیوں میں حضرت زینب ؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔ امہات المومنین میں یہ شرف صرف حضرت خدیجہؓ کو حاصل ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اولاد ہوئی ورنہ کسی سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مکہ کے عام لوگوں کی طرح کھیل کود، ناچ گانا اور اسی طرح کے دوسرے تماشوں اور مشغلوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فراغت کے اوقات میں دنیا کے حالات پر غور فرماتے اور تنہائی میں وقت گزارا کرتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں کی نظروں سے الگ رہ کر مکہ کے قریب غارِ حرا میں جا کر وقت گزارنے لگے اور عبادت میں مصروف رہنے لگے۔
حضرت خدیجہؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہر طرح خیال رکھتیں۔ غار میں کھانے پینے کا سامان بھیجتیں ، اپنے کسی ملازم کو آپ کی نگہبانی اور حفاظت کے لئے مقرر فرمادیتی تھیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غار سے واپس تشریف لاتے تو ہر طرح کا آرام پہنچاتیں ۔ اور خدمت گزاری میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔
اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عمر چالیس سال کو پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے غار حرا میں پہلی وحی ’’اقراء‘‘ نازل فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نبوت عطا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پریشان اور گھبرائے ہوئے گھر واپس آئے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا، ’’مجھے اڑھا دو‘‘۔ ’’مجھے اڑھا دو‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے اور جب گھبراہٹ ختم ہوئی اور کچھ سکون اور اطمینان حاصل ہو ا تو حضرت خدیجہؓ کو سب تفصیل بتائی اور خوف و خطرے کا اظہار کیا۔
حضرت خدیجہؓ نے اطمینان دلایا اور بڑی تسلی اور دلاسا دیا اور فرمایا ، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی کوئی نقصان نہ پہنچائے گا۔ کیونکہ آپ لوگوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ وعدہ کا پاس کر تے ہیں ۔ صادق اور امین ہیں، لوگوں کی امانتیں لوٹا دیتے ہیں ۔ مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں۔ مشکلات اور مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور ان کو سب بات بتائی ۔ وہ اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں گنے جاتے تھے انجیل کے عالم تھے عبرانی زبان بھی خوب جانتے تھے ۔ انہیں سب سے آخر میں آنے والے نبی کی علامات اور نشانیوں کا علم تھا۔
انہوں نے سب تفصیل سن کر فرمایا ’’یہ تو وہی دین ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم اس دین کی تبلیغ پر تم کو تمہارے وطن سے نکالے گی جو کچھ تم لے کر آئے ہو اور دوسرا جو کوئی بھی لے کر آیا وہ اپنی قوم کے ہاتھوں سنایا گیا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہ تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔‘‘ مگر وہ بہت تھوڑے عرصے زندہ رہے۔
وحی نازل ہونے کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سوچ اور فکر میں رہنے لگے کہ یہ ذمہ داری کس طرح ادا کر سکوں گا ۔ ان حالات میں حضرت خدیجہؓ ہی تھیں جو آپ کی دلدہی کرتیں، تسلی دیتیں، ڈھارس بندھاتیں اور ہمت بڑھاتیں۔ وہ کہتیں کہ ’’مجھے فخر ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیوی ہوں ۔ میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوں ، آپ پریشان نہ ہوں ، آپ نے اپنا تمام سرمایہ اس نیک کام کے لئے پیش کر دیا۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تقریباً تین سال تک اسلام کی دعوت نہایت خاموشی سے دیتے رہے۔ اس کے بعد اللہ کا حکم ہوا کہ اب اسلام کی دعوت کو عام کیا جائے اور ہر شخص کو یہ پیغام سنایا جائے۔
یہ نئی آواز۔ نیا پیغام۔ نئی راہ زندگی لوگ برداشت نہ کر سکے۔ پرائے کیا اپنے بھی ناراض ہو گئے۔ بعض تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دکھ پہنچانے کی ترکبیں کرنے لگے۔ بعض فقرے اور آوازے کسنے لگے۔ دوست و احباب ساتھ چھوڑنے لگے ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سب تکالیف اور مشکلات برداشت کیں۔ ان حالات میں حضرت خدیجہؓ ہر طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھ دیتی رہیں۔ یہ حضرت خدیجہؓ ہی ہیں جن کو عورتوں اور مردوں میں سب سے پہلا مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
ایک موقع ایسا بھی آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاندان والوں کو اور دوسرے مسلمانوں کو وادی ’’شعب ابوطالب‘‘ میں محصور ہونا پڑا۔حضرت خدیجہؓ نے اپنا گھر بار، عیش و آرام ، مال و اسباب سب چھوڑ کر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھ دیا۔ گرمی، بھوک، پیاس، ظلم و جبر، مشقتیں، تکالیف سب کچھ اپنے شوہر کی خاطر برداشت کیا مگر مدد اور رفاقت سے پیچھے نہ ہٹیں۔ ایک پر خلوص شوہر پر دل و جان نچھاور کردننے والی بیوی کی طرح برابر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدد کرتی رہیں اور جب شعب ابوطالب کا تکلیف پہنچانے والا دور ختم ہوا تو سب کے ساتھ آپؓ بھی واپس تشریف لائیں اور خدمت گزاری میں لگی رہیں۔ یہاں تک کہ دعوتِ اسلام کو قوت و غلبہ حاصل ہو گیا۔
آپؓ نے اپنی چاروں صاحب زادیوں کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال اس طرح فرمائی جو ایک مثالی ماں کے شایانِ شان تھی ۔ ایسی لڑکیوں کے ساتھ کھیل کود سے منع کرتیں جن کے عادات و اطوار اور اخلاق قابلِ بھروسہ اور ٹھیک نہ ہوتے۔
وہ فقیروں، محتاجوں، مسکینوں اور غلاموں کا بڑا خیال کرتیں۔وہ مریضوں، بے کسوں، بے بسوں اور بوڑھوں پر بڑی شفقت کرتیں اور ان سے بڑی مہربانی سے پیش آتیں۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو دیکھا اور ان کا مالک انہیں بیچ رہا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت زیدؓ کی اس حالت پر بڑا رحم آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خدیجہؓ سے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ انہو ں نے پوچھا زیدؓ کی کیا قیمت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتایا کہ سات سو درہم۔ حضرت خدیجہؓ نے فوراً سات سو درہم حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیئے اور کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت زیدؓ کو خرید لائیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضر ت زیدؓ کو لے کر گھر تشریف لائے تو فرمایا۔ اگر یہ میرا غلام ہوتا تو اس کو آزاد کر دیتا۔ حضرت خدیجہؓ نے فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کو اپنی ہی غلام سمجھیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت زیدؓ کو اسی وقت آزاد کر دیا اور اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔
شعب ابوطالب میں مصیبت کے دنوں میں جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا گھرانا اور دوسرے سب مسلمان بھوک اور پیاس سے بدحال تھے تو حضرت خدیجہؓ اپنے ایک عزیز حکیم بن خدام سے خفیہ طور پر اناج منگواتیں اور سب مسلمانوں میں تقسیم فرمادیتیں ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ خود اپنے کو بھول جاتیں اور خود کے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نہ بچتا۔
آپؓ نے اسلام سے پہلے اور بعد بھی غریب اور نادار گھروں کے لئے رقومات مقرر کر رکھی تھیں اور یہ رقومات بڑی راز داری کے ساتھ ان گھروںکو پہنچتی تھیں کہ گھر کے بچوں تک کو خبر نہ ہوتی تھی۔
حضرت خدیجہ ؓ بڑے خوش حال اور دولت مند گھر میں بڑی خوش حالی میں پلی تھیں اور زندگی بڑے آرام و راحت میں گزاری تھیں۔ اسی وجہ سے طبیعت بھی نازک ہو گئی تھی۔ شعب ابو طالب کی بے آرامی اور مشقتوں کی وجہ سے آپؓ خاصی کمزور ہو گئی تھیں۔ جب وہاں سے واپس گھر تشریف لائیں تو ایسی بیمار ہوئیں کہ زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی اور آپؓ رمضان ۱۰سن نبوت ۶۱۹عیسوی مکہ میں اپنے خالق سے جا ملیں ۔ وفات کے وقت آپؓ کی عمر تقریباً ۶۳ سال تھی۔
آپؓ کی وفات سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو شدید صدمہ اور دکھ پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے کو تنہا محسوس کر نے لگے۔ حضرت خدیجہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے بڑی تسکین و راحت کا سبب تھیں۔ پھر آپ کی خدمت گزاری ، برے وقتوں میں تسکین و تشفی اور ساتھ نبھانا جب عزیز و اقارب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یاد آتا تھا۔
حضرت خدیجہؓ اس وقت ایمان لائیں جب سارے لوگ یہاں تک کہ بعض عزیز و رشتہ دار بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جھٹلاتے اور طنز کرتے تھے۔ اسی لئے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپؓ کو بہت یاد فرماتے اور آپ کی خوبیوں اور حسن سلوک کا تذکرہ بار بار کرتے۔ جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال کو ’’غم کا سال‘‘ کہا جانے لگا۔
حضرت خدیجہؓ کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ایسے مکان کی خوش خبری دی ہے جو موتیوں سے بنا ہو گا۔ بہت حسین و جمیل ہوگا اس میں کوئی شور غل نہ ہو گا۔ کسی طرح کی پریشانی نہ ہو گی۔ اطمینان قلب ہو گا۔ ہر طرف سکون و راحت ہو گی۔
حضر ت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’زمین و آسمان میں جتنی بھی عورتیں ہیں ان میں سب سے بہتر مریم علیہ السلام بنت عمران اور خدیجہؓ بنت خویلد ہیں۔‘‘
وہ جب تک زندہ رہیں حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بہت محبوب رہیں اسی لئے ان کی زندگی میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کوئی دوسری شادی نہ کی ۔ یہ بات حضرت خدیجہؓ کی وہ فضیلت ہے جو دوسری کسی بیوی کو حاصل نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کی بھی بڑی عزت و توقیر فرماتے اور ان سے بڑے لطف و عنایات سے پیش آتے۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے گھر میں ایک بزرگ خاتون تشریف لائیں تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے بڑی عزت و احترام سے پیش آئے۔ اپنی چادر مبارک بچھا دی اور اس پر ان کو بٹھایا اور بڑی خاطر داری فرمائی۔ یہ بزرگ خاتون حضرت خدیجہؓ کی سہیلی تھیں۔
اگر کبھی کوئی بکری وغیرہ ذبح فرماتے تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھی تقسیم فرماتے ۔ فرماتے ’’خدیجہؓ جن سے محبت کرتی تھیں میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔