ہماری درس گاہ میں جو یہ استاد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں
انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزرتا ہے وہ نئے رشتوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی ،اخاقی اور معاشرتی طور پر بنتے ہیں ۔انہی میں سے ایک درجہ استاد کا بھی ہیں ۔ استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے۔اسلام میں استاد کا درجہ والدین کے برابر قرار دے دیا گیا ہے۔کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہے۔ کیونکہ استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں جینا اور رہنا ،سہنا ،سیکھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استاد اور صحابہ کرام شاگرد ہیں۔صحابہ جو کچھ حضور اکرم سے حاصل کیا اسے تمام تر جدوجہد کے ساتھ دوسروں تک پہنچا دیا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے” پیغمبر تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ سب کچھ سیکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے”
“احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں استاد کو ایک اعلیٰ وارفع مقام دیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہو”
سب سے مقدس رشتہ محبت کا، احترام کا،تعظیم کا،انسیت کا،درد کا خوف کا استاد اور شاگرد کا رشتہ ہوتا ہے۔ استاد گھنے درخت کے مانند ہوتا ہے ایک لمبے سفر میں توڑھی دیر کے لیے ٹھنڈی اور میٹھی چھاؤں کا ذریعہ۔ استاد ایک چراغ ہے جو تاریک ذہنوں کو علم سے روشناس کرتا ہے استاد ایک رہنما ہے جو ہمیں ۔اچھے اور برے کا صحیح تصور دیتا ہے جو ہماری روحانی تربیت کرتا ہے۔
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہما
انہی سے ہیں افراد ضیاء باز ہمارے
5 اکتوبر اساتذہ کا عالمی دن ہے جس میں بے شمار طلباء اپنے اساتذہ کو کارڈز اور تحائف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن میرے خیال میں اساتذہ کے لیے کوئی دن محتص نہیں ہے ۔
دنیا میں بہت کم لوگ دوسروں کو خود سے آگے نکلتا دیکھنے کی خواہش کرتے ہیں ان میں سرفہرست ہمارے والدین ہوتے ہیں اور دوسرے ہمارے اساتذہ جو چاہتے کہ ان کےشاگرد ان سے بھی زیادہ کامیاب ہوں۔یہ استاد ہی ہے جو شاگرد کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔
کسی ملک میں وکیل، ڈاکٹرز، انجینئرز نے احتجاج کر کے مطالبہ کیا کہ ہماری تنخواہیں اساتذہ کی تنخواہوں کے کم کیوں ہیں تو ایک بہت خوبصورت جواب دیا گیا کہ:” تمہاری تنخواہیں ان اساتذہ جتنی کیسے دی جا سکتی ہے جن سے پڑھ کر تم اس مقام تک پہنچے ہو”
اگر کوئی طالب علم یہ سوچ لے کہ علم استاد سے نہیں کتاب سے حاصل ہوتا ہے تو اسنے ناکامی کی سیڑھی پہ پہلا قدم رکھ لیا۔
تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجیے
اے دوستوں ملے تو بس اک پیام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا