اگر ہم اسلام کے سنہری دور (۷۵۰ عیسوی تا ۱۲۵۸ عیسوی) پر نظر دوڑائٗیں تو بہت سے روشن ستارے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آیئے پہلے ان میں سے کچھ کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
جابر بن حیان:
جابر بن حیان ایک جغرافیہ دان، ماہر طبیعات، ماہر فلکیات اور منجم تھے۔ انہوں نے سائنس اورنظریات کو اس طرح اپنایا کہ آج تک دنیا انہیں بابائےکیمیا کہتی ہے۔ انہوں نے امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب، منطق، حکمت اور کیمیا جیسے مظامین پڑھائےجاتے تھے۔ جابر بن حیان نے اپنی زندگی میں ۶۰۰ کتابیں لکھیں جو تقریبا تین ہزار موضوعات پر مشتمل ہیں۔
ابن الہیثم:
ابن الہیثم نے آنکھ پر تحقیق کی اور پہلی بار درست طور بیان کیا کہ ہم کس طرح دیکھتے ہیں۔ اپنی ۷۶ سالہ زندگی میں انہوں نے تقریبا چھیانوے کتابیں لکھیں اور دنیا کا پہلا کیمرہ ایجاد کیا۔ آنکھ کا بارے میں کئی جلدوں پر مشتمل کتاب کے علاوہ بھی متعدد ایجادات و تحقیقات ان سے منسوب ہیں اور ان کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ وہ کشش ثقل کے بارے میں بھی بہت پہلے سےجانتے تھے۔
الکندی کوفہ:
الکندی کوفہ میں پیدا ہوئے، بہتر سالہ زندگی میں جیومیٹری، میڈیسن، فلکیات ، فلسفہ اور فزکس پر دو سو چھ کتابیں لکھیں۔ انہوں نے بغداد میں ایک ریسرچ یونیورسٹی بھی بنائی۔ علم فلکیات پر انہوں نے تحقیق کے بعد روشنی ،نظام شمسی اور ستاروں پر کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے موسیقی پر بھی پندرہ مقالے لکھے ۔
ابن سینا (ابو علی ابن سینا):
ابن سینا (ابو علی ابن سینا) نے فلسفہ، طب ، فلکیات، کیمیا، جغرافیہ، ارضیات، نفسیات، اسلامی الہیات، منطق، ریاضی، طبیعات اور شاعری پر کتابیں لکھیں۔ بارویں صدی میں ابن سینا کی میٹا فزکس ارسطو کے بعد یورپ کی واحد میٹا فزکس تھی۔ ابن سینا نے اپنے کا م میں ارسطو تک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اور مرنے تک تحقیق کا کام کرتے رہے۔ طب پر ان کے کام پر نظر ڈالیں توان کی طب پر لکھی ہوئی ایک کتاب چودھویں صدی سے ۱۷۱۵ عیسوی تک یورپ کے ہر میڈیکل کالج کے نصاب میں کسی نہ کسی شکل میں شامل تھی۔
اسی طرح اگر ہم مسلمان سایٗنسدانوں کی زندگی ، ان کی تحقیقات و تصنیفات کو دیکھتے جائیں تو حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ ایک زندگی میں کس طرح ان کا کام اتنا کثیرالجحت اور جامع تھا۔ ایک ہی انسان کس طرح اتنے زیادہ موضوعات پر اورمختلف انداز کی تحقیق کر کے ان پر کتابیں لکھنے کی قابل ہو جاتا تھا۔
اسلام کے سنہری دور میں ہزاروں ایسے نام ہیں جن پر ہم تحقیق کرنے لگیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ البیرونی، طوسی ، الفارابی، ابن خلدون ، موسیٰ الخوارزمی، عمر خیام غرض کہ نا م ہیں جن کا کام پڑھنے لگیں تو صبح سے شام ہو جائے۔ چنانچہ ہم یہ بھی حجت نہیں کر سکتے کہ ہر دور میں ہی کچھ لوگ اسپیشل ہوتے ہیں۔اگر صرف اتنی بات ہوتی تو اس دور کو آج تک اسلام کا سنہری دور نا لکھا جا رہا ہوتا اور مسلمانوں کے بہت سے کاموں کی طرح ان چند ناموں کو بھی بآسانی تاریخ میں گم کر دیا جاتا۔ مگر وہ اتنا زیادہ اور اتنا پاور فل کام ہے کہ دنیا کے لیئے اس کو نظر انداز کرنا یا مٹانا ممکن نہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم آج اس بات پر تحقیق نہیں کرتے کہ اس دور کے اسکولوں میں سلیبس کس طرح مرتب کیے جاتے تھے؟ کیا کیا مظامین پڑھائیں جاتے تھے کہ جن کا اتنا اثر انگیز نتیجہ نکلا۔ طالب علم پندرہ سولہ سال کی عمر میں کتابیں لکھنا شروع کر دیتا اور ساری زندگی لکھتا اور وہ کتابیں بھی خالصتا” اس کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتی اور ایسے موضوعات پر جن پر پہلے سے بہت کم یا کوییٗ مواد موجود نہ تھا۔ آخر وہ استاد کیسے تھے جو طالب علموں میں علم کی ایسی پیاس جگاتے جو ساری عمر ان کی موٹیویشن کم نہ ہونے دیتی؟ آخر ستر اسی سال کی زندگی میں سو سے پانچ چھ سوتک کتابیں لکھنا کوئی معمولی بات تو نہیں۔ ایسا کیا ہوا ہمیں کہ ہم اتنے غیر معمولی دور کو ایسے فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ جیسے وہ کچھ تھا ہی نہیں۔
اس دور پر تحقیق کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں کیونکہ آج کل ہر چیزتک گھر بیٹھے انٹر نیٹ پر رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس دور کی بہت سی کتابیں، تواریخ ، حالات و واقعات ٹھیک ٹھیک شکل میں دستیاب ہیں۔ بہت سے سائنسدان تو خود اپنی سوانح تک چھوڑگئے ہیں جن سے ان کے علم کی نوعیت اور ترتیب کو آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ تو آج کل ڈی این اے ٹیسٹ کے دور میں ہم صرف اس دور کی علمی ترقی کا راز معلوم نہیں کر سکتے؟
کورونا دور سے پہلے ہمارے خیال میں سب کچھ نارمل تھا۔ اس نارمل کا اگر تجزیہ کریں تو ہمارے ہاں ایک بچہ چار سال کی عمر میں اسکول داخل کروایا جاتا ہے، پلے گروپ، نرسری پریپ پڑھنے کے بعد کوئی سات سال کی عمر میں پہلی کلاس تک پہنچتا ہے اور ان تین سالوں میں اس کے علم میں رتی برابر فرق نہیں پڑتا۔ تین سال میں پنسل پکڑنا، چند نظمیں، فونکس، چند چیزوں کے نام رٹانے کے علاوہ اور کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ہاں کچھ اسکول جو کہ مہنگے ہونے کے علاوہ ماڈرن کہلائےجاتے ہیں وہاں کے طالب علم انگریزی زبان میں چھوٹی موٹی گفتگو سیکھ جاتے ہیں۔ جو لینگویج کورس چند ہزار میں ہو سکتا ہے اسے بچے کی زندگی کے بہترین علم حاصل کرنے والے سالوں میں لاکھوں روپے دے کر سکھایا جاتا ہے اور اسی کو کامیابی اور ترقی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی بہترین سے بہترین اسکول کے بچے سے پہلی دوسری کلاس میں کوئی علمی سوال بنیادی سائنس ریاضی کا پوچھ کر دیکھیں وہ جواب نہیں دے سکے گا۔