پاکستان میں جب بچے کو اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے تو کئی والدین اسی وقت دل میں تہیہ کر لیتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو ڈاکٹر بنائیں گے تا کہ وہ خدمت خلق بھی کریں اور ان کا مستقبل بھی روشن ہو۔ بچہ ابھی مکمل شعور کی عمر میں داخل بھی نہیں ہوتا کہ اس کے کانوں میں ڈاکٹر بننے کے الفاظ انڈیل دیے جاتے ہیں۔
والدین اپنے اس مقصد کے لیے اچھے سے اچھے اور مہنگے سے مہنگے اسکولوں کا چناؤ کرتے ہیں تا کہ ان کی تعلیمی بنیاد مضبوط ہو۔ دوسری طرف ان کے بچے بھی ڈاکٹر بننا ہی اپنا مشن بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ وہ دوسری سرگرمیوں اور تفریحات کو پس پشت ڈال کر زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں جت جاتے ہیں اور ایک ایک نمبر کے لیے مر مر جاتے ہیں۔ طالب علموں سے زیادہ ان کے والدین کی جان اٹکی ہوتی ہے۔ وہی والدین اور بچے اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں جن طلباء و طالبات کے میٹرک میں 1050 سے اوپر نمبر آئیں۔
کالج کے علاوہ بھاری ٹیوشن فیس والی اکیڈمیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جان جوکھوں میں ڈال کر یہاں بھی بہترین یعنی زیادہ تر 90 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد والا مرحلہ جسے میڈیکل کی لائن میں سب سے مشکل ترین مرحلہ سمجھا جاتا ہے وہ آتا ہے یعنی MDCAT کا ٹیسٹ۔ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جو پلک جھپکنے میں 15 سال سے دن رات محنت میں ڈوبے طالبعلم کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ والدین اور بچے صدمے سے شاک کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ دو لاکھ لائق ترین طلباء وطالبات میں سے صرف چند سو نے گورنمنٹ میڈیکل کالجوں کے لیے منتخب ہونا ہوتا ہے۔ باقی رہ جانے والے امیدواروں میں سے جن کے MDCAT میں 65 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر ہوں تو وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں جا سکتے ہیں۔ جن کی فیسیں فی سمیسٹر لاکھوں میں ہے۔ اگر فی مہینہ حساب لگایا جائے تو ایک لاکھ سے سوا لاکھ تک ضرور بنتی ہے۔
کیا ایک تنخواہ دار شخص یا کوئی متوسط گھرانہ ایک بچے کی ہی اتنی زیادہ فیس دینے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر بننے کے لیے پہلا اصول ہی دل میں خدمتِ خلق کا جذبہ ہونا ہے لیکن جس طالبعلم نے اپنے والدین کو تنگیاں سہہ کر اتنی فیس دیتے دیکھا ہو تو سوچئے خدمت خلق کا یہ جذبہ اس کے دل میں کتنا پروان چڑھے گا؟
کچھ بچے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں چلے جاتے ہیں لیکن بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے صرف یہی آپشن ہوتا ہے کہ اب صرف سادہ سادہ بی اے کر لیں یا بی ایس سی۔
وہ افسردہ ہوتے ہیں اور دلوں کے ٹوٹے ہوئے بھی کیونکہ ان کا ڈاکٹر بننے کا برسوں سے دیکھا ہوا خواب ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ پہلے MDCAT کا ٹیسٹ UHS کا ادارہ لیتا تھا پھر پی ایم سی والوں نے خود لینا شروع کر دیا لیکن اس بار عجیب کام یہ کر دیا کہ انٹری ٹیسٹ کا کام TEPS کے حوالے کر دیا اور اس ادارے نے طالب علموں کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھایا۔ کسی کو مشکل اور کسی کو آسان ٹیسٹ ملا سب سے بڑھ کر ٹیسٹ، ٹیبز پر لیا گیا۔ ذرا سوچیں پاکستان میں خاص کر دہہی آبادی میں کتنے گھرانے ایسے ہیں جہاں بچوں کے ہاتھوں میں ٹیب جیسے گیجٹس پکڑا دیے جاتے ہیں یا وہ انہیں پڑھائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جن کی قیمت ہی 30 ہزار سے شروع ہوتی ہے۔ انٹری ٹیسٹ دینے والے بچوں میں کئی بچے ایسے بھی ہوں گے جن بیچاروں نے اس گیجٹ کو شائد پہلی مرتبہ پکڑا ہو گا۔ وہ گھبراہٹ میں مبتلا ہو کر کیا امتحان دیں گے۔
گویا یہ ان کا انٹری ٹیسٹ نہ ہوا بلکہ یوم الدین کا امتحان ہو گیا۔ میٹرک میں اٹھانوے فیصد نمبر حاصل کرنے والے بچے بھی انٹری ٹیسٹ میں پینسٹھ فیصد سے کم نمبر لے رہے ہیں۔ حالانکہ یہاں پاسنگ مارکس ہی 65 فیصد ہیں۔ یوں سمجھیں کہ ان تعلیمی ٹھیکیداروں کی اپنی ذہنی اختراع کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں طلباء و طالبات کی سالوں کی دن رات کی محنت اور والدین کا دونوں ہاتھوں سے پیسے لٹانا منٹوں میں ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ اساتذہ جن بیچاروں کی پڑھانے کے عمل کے دوران بول بول کر گلے کی رگیں پھٹ جاتیں ہیں۔ کیا انہیں اپنی اکارت ہوتی ہوئی محنت دیکھ کر دکھ نہ ہوتا ہو گا۔ اب اس سسٹم کے خلاف والدین اساتذہ اور طالب علموں کو مل کر آواز بلند کرنا ہو گی۔
انٹری ٹیسٹ کو آسان بنا کر صرف کونسیپٹ چیک کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔ انٹری ٹیسٹ ٹیب کی بجائے تحریری طور پر لیا جائے۔ کیونکہ اس بار TEPS کا تجربہ زبردست ناکام ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ اس وقت بچوں کی شکایات کے باوجود کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی اس ادارے نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ پاکستان میں میڈیکل کو جتنا مشکل بنایا جا رہا ہے لوگوں کے ذہنوں میں اتنا ہی زیادہ اس تعلیم کے حاصل کرنے کو قابلیت کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے والدین کی اپنے بچوں کے لئے یہی تعلیم ترجیح ہے۔
حالانکہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا بالکل نہیں اس لیے وہاں میڈیکل میں داخلہ پاکستان کی نسبت بہت آسان ہے۔ ملک میں اگر گورنمنٹ میڈیکل کالج کم ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں پر فیسیں کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ وہ کالی بھیڑیں بننے کی بجائے فیس اتنی رکھیں جسے درمیانی آمدن والا شخص بھی افورڈ کر سکے۔ کئی بچے ایسے بھی ہیں جنہیں پاکستان میں میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا تو وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رخ کر لیتے ہیں کیونکہ ان کے لیے پاکستان کی نسبت وہاں یہ تعلیم آسان اور سستی ہوتی ہے۔
جب واپس اپنے ملک میں آتے ہیں تو ڈگری کی ویلیو یہاں کی نسبت زیادہ۔ اب یہ معیار کا دوہرا رخ بھی مکمل ختم کرنا ہو گا۔ میری میڈیکل بورڈ سے استدعا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ وطن عزیز پاکستان کو لٹیرے ڈاکٹروں کے بجائے مسیحا ڈاکٹر مہیاء کریں۔