عزت ذلت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وتعز من تشاء و تزل من تشاء بیدک الخیر کا مالک شہنشاہ مطلق کی ذات ہے۔ لوگ پیسوں کے ساتھ اپنی عزت اور معیار بنانے کی کوشش کرتے آئے ہیں، عزت کیلئے سیاست کا سہارا لیتے ہیں، عزت کیلئے اور اپنا اسٹیٹس بڑا شو کرنے کیلئے بڑے بڑے رشتوں کا سہارا لیتے ہیں.
عزت کیلئے اپنے سے بڑے رُتبے والے سے دوستی رکھتے ہیں۔ عزت کیلئے انتھک محنت رات دن ایک کر لیتے ہیں صبح شام دوڑ لگی ہوتی ہے۔ یہاں جس کی ایک لاکھ مہینہ کی آمدن ہو وہ سمجھتا کے میں سب سے زیادہ معتبر شخص ہوں مجھے عزت دی جائے میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں۔ کسی کو کرسی مل جائے وہ سمجھتا کہ عزت مل گئی.
اچھی نوکری مل جائے سمجھتا عزت مل گئی، کالا دھندہ چلنے لگ جائے سمجھتے ہے کہ اللہ نے ہاتھ پکڑ لیا۔ نادان سمجھتا ہے جتنی بڑی کوٹھی ہو گی، جتنے زیادہ نوکر چاکر ہوں گے اتنی زیادہ عزت ہو گی پتہ نہیں ہم لوگوں نے عزت کو کیا سمجھا ہوا ہے؟ دراصل عزت میں عزت ملے گی جتنی عزت کرو گے اتنی عزت ملے گی تمہیں سب سے پہلے عزت کا حق ادا کرنا ہے رب العزت کا پھر رب کے نبی کی عزت کا پھر مومنین کی عزت کا خدا اور اس کے رسول کی آمد کا رسول کے صحابہ کی عزت کرنے کا اگر تم ان سب کی عزت کا حق ادا کر لیتے تو پھر یقین رکھو اپنے رب کریم پر وہ کبھی بھی تمہاری عزت پر آنچ نہیں آنے دے گا اور اگر تو ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے تو بڑی کوٹھی بڑے رتبے اور زیادہ پیسے کے حصول کیلئے دوڑ لگائے گا اور ان کی عزت نہیں کرے گا جن کی عزت تم پر فرض ہے تو یہ بات جان لے کہ وہ ذات تجھے تیرے گھر میں بے عزت کر کے چھوڑے گا۔ یہاں ہم سب آزمائش میں ہیں۔ اللہ آزمائش کرتا ہے مال و اولاد دے کر، علم دے کر.
حسن دے کر، بھوک دے کر، نوکری دے کر، دُکھ دے کر، سکھ دے کر ہر حال میں آزمائشیں ہیں۔ عزت ذلت کے فیصلے موت کے وقت ہوتے ہیں یا پھر آخرت میں ہوں گے۔ یہاں پر کوئی آدمی یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا کہ میں معزز ہوں عزت والا ہوں تو پھر عزت دار بننے کے جھوٹے خواب کیوں دیکھتا ہے؟ موت کو جتنا زیادہ یاد رکھو گے اتنے زیادہ ذرائع عزت کے رب عطاء کرے گا۔اللہ تیری وہاں سے عزت بنائیں گے جہاں تک تیری سوچ بھی نہیں ہوگی.
تیرا وہ مقام ہو گا جس کے تم مستحق ہو گے۔ اگر ہمیں عزت دار بننا ہے تو ہمیں قرآن مجید اور سیرت مصطفیٰ کو سامنے رکھ کر خود کو دیکھنا چاہیے۔ہمیں اپنے گریبان میں دیکھنا ہو گا کہ معزز کس طرح ہوتا ہے اور ہم کیا ہیں۔ ہمیں قرآن مجید اور سیرت محمد مصطفیٰ کو آئینہ بنا کر دیکھنا ہو گا۔ اور انہیں کے بتائے ہوئے راستے پر ہی تو ہم عزت حاصل کر سکتے ہیں.