ماسک اور خول

ابن سینا نے اپنی مشہور کتاب’’القانون فی الطب‘‘میں 1025 میں ہر قسم کی وبائی امراض کے بارے میں ’’قرنطینہ‘‘کا تصور پیش کیا۔اس عمل کے لئے انہوں نے لفظ ’’اربعینہ‘‘یعنی چالیس روز استعمال کیا۔بارھویں صدی میں جب اس کتاب کا اطالوی زبان میں ترجمہ ہوا اس چالیس دن کا نام قرنطینہ Quarantenaپڑا،جس کے معنی اطالوی زبان میں چالیس روز ہی ہوتے ہیں۔تاریخ طب میں اب سینا اور البیرونی کی ملاقات کا احوال بہت جگہ بیان کیا گیا ہے۔اور اس ملاقات کی وجہ شہرت دراصل اس دور میں پھیلی ہوئی وباطاعون اور احتیاطی تدابیر ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب البیرونی مصافحہ کرنے اور گلے لگانے کے لئے آگے بڑھے تو ابن سینا نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔نہ صرف انکار کیابلکہ سرکہ کے پانی کے ساتھ صاف کپڑے لانے کو بھی کہا تاکہ البیرونی اپنے ہاتھ اور چہرہ وغیرہ کو مکمل طور پر صاف کر لیں۔البیرونی حیران ہوئے اور وجہ پوچھی ۔جواب ملا کہ جہاں کالی موت(طاعون)پھیلی ہوئی ہو وہاں گلے لگنے اور ہاتھ ملانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ابن سینا نے اس وبا کو روکنے کے لئے چند اور احتیاطی تدابیر بھی پیش کیں جو آج بھی من و عن صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔

لوگوں میں خوف وہراس نہ پھیلایا جائے۔ ہاتھ نہ ملایا جائے۔ میل جول کو محدود کر دیا جائے۔ بازاروں اور مساجد کو بند رکھیں۔ ہجوم نہ کریں، کرنسی کو بھی سرکہ سے دھوکر یا صاف کر کے استعمال کیا جائے۔ مسواک کو بھی سرکہ سے دھو کر استعمال کریں اور مریض کو چالیس روز تک الگ رکھا جائے۔

ان دو دانائوں کی ملاقات کے نتیجہ کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ وبائی امراض کے دنوں میں ہمیں خاص احتیاط کی ضرورت رہتی ہے،خاص کر ہاتھوں کو دھونا اور چہرے کو ڈھانپ کر رکھنا۔موجودہ سائنسی دور میں سائنس نے یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ ہمیں اب کپڑے سے منہ ڈھاپنے کی بجائے فلٹریشن والا ایک ماسک فراہم کر دیا ہے۔جس کے بے شمار فوائد ہیں۔کپڑے کا یہ وہ ماسک ہے جو ہر کوئی دیکھ پاتا ہے۔لوگ دیکھتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ اس شخص نے بیماری سے بچائو کی احتیاطی تدابیر کر رکھی ہے،یا پھر اس کا مقصد ارد گرد موجود اپنے پیاروں کو محفوظ رکھنا ہے۔لیکن ایسے لوگوں کی پہچان کیسے ہو جنہوں نے اپنے چہروں پر منافقت وبے حسی کے خول در خول سے ڈھانپ رکھا ہے۔مگر مخاطب ہوں تو لہجہ ایسا شیریں کہ کانوں میں شہد گھل گھل جائے۔وہ تو عرصہ دراز بعد پتہ چلتا ہے کہ ۔۔۔۔بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔

لوکی مینوں چہرے اتے خول چڑھا کے ملدے نیں

منہ دے کنے مٹھے پر دل دے کنے کوڑے نیں۔

ایسے ابن الوقت لوگوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے ماسک اتار لیتے ہیں۔وہ شخص جو چند دن قبل آپ کے وارے وارے جا رہا تھا اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی وقت بھی حزب مخالف کے پلڑے میں بیٹھا دکھائی دے گا۔دراصل اسے آپ سے نہیں اپنے مفاد سے پیار تھا۔ماسک اس نے پہلے سے ہی چڑھا رکھا تھا تاہم آپ کا اعتماد تھا جو اسے پہچان نہیں پایا۔یہی حال اقوام عالم کا بھی ہے۔بلکہ دور جدید میں تو خارجہ پالیسی کی تعریف بھی یہی کی جاتی ہے کہ ہر ملک اپنے مفادات کے لئے دیگر ممالک سے تعلقات استوار کرتا ہے۔یہی خارجہ پالیسی ہے۔گویا خارجہ پالیسی کی بنیاد اخلاص نہیں بلکہ مفادات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی مستقل بنیادوں پر استوار نہیں ہوتی ،آج کا دوست کل کا دشمن بھی ہو سکتا ہے۔اور آج کا دوست کل دشمن کی صفوں میں دکھائی بھی دے سکتا ہے۔عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے ہمسائیوں،دوستوں اور ممالک سے بچا جائے جنہوں نے ماسک کے نیچے بہت سے خول چڑھا رکھے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔