ہر سال پوری قوم پورے جوش وخروش اور قومی جذبے سے سرشار ہو کر 6 ستمبر کو یوم دفاعِ پاکستان مناتی ہے۔ 6 ستمبر 1965ء کو علی الصبح مکار اور عیار دشمن بھارت کی افواج نے 600 سے زائد ٹینکوں کے ساتھ لاہور کے قریب بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہوئے، شہر میں داخل ہونے کی بھرپور کوشش کی اور منہ کی کھائی تھی۔ جب پاک فوج کے سرفروش فدائیوں نے دشمنوں کو ناقابل فراموش شکست سے دوچار کرتے ہوئے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا۔ اس وقت قوم کا ہر فرد بیدار ہوگیا تھا وہ سب الوہی جذبے سے سرشار دشمن کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر سینہ تانے کھڑے تھے۔ اس وقت گھر گلی کوچے جوشیلے قومی ترانوں اور نعروں سے گونج اٹھے تھے۔ تب دشمن کو معلوم ہوا تھا کہ اس نے کن سرپھروں سے ٹکر لینے کی جرات کی تھی۔ پوری قوم اور پاک مسلح فوج نے اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی بھاری بھارتی فوج کو پاکستان پر حملے کا ایسا کرارا جواب دیا کہ دنیا مسلح افواج کی قیادت، پیشہ ورانہ مہارت، جرات کے ساتھ ساتھ قوم کے جذبہ حب الوطنی پر انگشتِ بدنداں ہو کر رہ گئی۔
محبت چاہے اپنی مٹی سے ہو یا مٹی کے خالق سے ہو۔ جس محاذ پر بھی دشمن نے حملہ کیا اس محاز پر اسے منہ توڑ جواب دیا گیا۔ جب مٹی کی بات آئی تو پاک فوج نے جواب دیا اور جب ختمِ نبوت کی بات آئی نبی کے وارثین علماء کرام نے دشمن کے دانت کھٹے کیے۔
تاریخِ اسلام شاہد ہے کہ جب بھی کسی کمینہ خصلت نے قصرِ نبوت پر ڈاکہ زنی کی ناپاک جسارت کی، غیور مسلمانوں کی تلواریں اللہ کا انتقام بن کر اس کی طرف لپکیں اور اس ناہنجار کو جہنم واصل کر دیا، مسلمانوں کی تاریخ اس شمعِ فروزاں کے تحفظ کے لیے قربانیاں دینے والوں پروانوں سے بھری ہوئی ہے۔
خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے سب سے پہلے سچے عاشق رسولﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تلوار حق بلند کی۔ اور منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد کیا۔
آئیے ذرا تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ انگریز مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے سخت خائف تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ ایسے میں انہوں نے جہاد کا تصور مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے نئے پیرائے میں پیش کرنے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے غلام احمد قادیانی کی صورت میں اپنا خودکاشتہ پودا تیار کیا۔ اس بدبخت دروغ گو نے اپنے مائی باپ انگریز کے کہنے پر یکے بعد دیگرے کئی دعوے کیے۔ اور اپنے ہر دعویٰ میں بدترین جھوٹا ثابت ہوا۔
بیسویں صدی کی ابتداء یعنی 1901ء میں برصغیر پاک و ہند میں مرزا غلام احمد قادیانی ملعون نے اپنے خودساختہ نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے سنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو محدثِ اعظم سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے جلا بخشی۔ بعد ازاں انہوں نے بڑی محبت اور شان سے یہ سعادت و عظیم الشان ذمہ داری سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کو سونپ کر انہیں امیر شریعت کے خطاب سے نوازا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ جوشیلے نڈر جوان تھے انہوں نے اپنے حسن انتخاب کی لاج رکھ لی اور انگریز سرکار سے آزادی کی تحریک چلانے کے ساتھ ساتھ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا۔
1953ء میں تحریک ختمِ نبوت آپ ہی کی بے باک، پرجوش قیادت کے باعث ہر مکتب فکر ونظر میں مقبول و معروف ہوئی۔ علماء ومشائخ نے اس قادیانی فتنے کے سدباب کے لیے ہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ کیا، ہزاروں نوجوانوں، بچوں اور بوڑھوں نے ”ختمِ نبوت” کا فلک شگاف نعرے لگا کر اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں۔ اس دور کے کئی واقعات ہماری نوجوان نسل کی نگاہوں سے کسی حد تک اوجھل ہیں۔ ان سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ اسی روایت کو زندہ رکھنے اور اپنی نسلوں کو آگاہ کرنے کے ہر سال 7 ستمبر کو یوم دفاعِ ختم نبوت منایا جاتا ہے۔
سات ستمبر 1974ء کے مبارک دن پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے مشترکہ طور پر تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے قادیانی فتنے کی جڑوں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ متفقہ طور پر قادیانیوں، احمدیوں اور مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر دم لیا جبکہ تاریخی مقدمہ بہاول پور فتن? قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل ثابت ہوا، اس مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ، ریاست بہاول پور میں عبدالرزاق نامی شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے اپنے باپ کے توسط سے 24جولائی 1926ء کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ نکاح کا دعویٰ کر دیا۔ یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کو بغرض شرعی تحقیق منتقل ہوا کہ آیا قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں یا نہیں؟ اس طرح یہ مقدمہ دو لوگوں کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا۔ حق وباطل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جج جناب محمد اکبر خان نے 7فروری 1935ء کو سنایا، جس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بناء پر مسلمان نہیں، بلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کا غلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دے دیا گیا۔
اس تاریخ ساز فیصلہ نے پورے عالم اسلام پر مرزائیت کے عقائد کو آشکار کردیا اور اس طرح مرزائیوں کی ساکھ روزبروز کمزور ہونے لگی۔ اس مقدمہ کے حوالے سے علماء کرام ومشائخ عظام اور جج صاحب کی کاوشیں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ مئی 1974ء میں رونما ہونے والے ایک واقعے نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔
نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروہ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جا رہا تھا۔ جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مشتمل لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔ نوجوان طلبہ اس پر مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے۔ 29مئی کو یہ طلبہ سیر و سیاحت کے بعد جب پشاور سے واپس ملتان آرہے تھے تو ربوہ پہنچتے ہی قادیانی دیسی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلبہ پر ٹوٹ پڑے اور طلبہ کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا اور ان کا سامان لوٹ لیا۔ آناً فاناً یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر جگہ مظاہروں کا ایک طوفان اُمڈ پڑا۔ مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے اس وقت کے امیر مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی دعوت پر تمام مکتب فکر نے لبیک کہا۔
9جون 1974ء کو لاہور میں اس مجلس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں قادیانیت کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔اس تحریک کا بس ایک ہی نعرہ تھا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔
قادیانی اس تحریک سے بھنا اٹھے انہوں نے مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے ہراساں کرنے کے لیے کئی جگہ دستی بموں سے حملے کیے۔ حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ تحریکِ ختمِ نبوت کے قائدین کی اکثریت تحفظِ ناموسِ رسالت کے مطالبے کی پاداش میں جیل میں ڈال دی گئی، مگر ان تمام معاملات نے تحریک کو ایک نئی امنگ بخشی اور تحریک پھلتی پھولتی چلی گئی۔ علمائے کرام دیوبند نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کئی ملاقاتیں کیں اور بالآخر ان کی غیرت ایمانی جگانے میں کامیاب ہوگئے کہ بھٹو صاحب نے سانحہ ربوہ اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا۔ اس طرح قومی اسمبلی میں مرزائیت پر بحث شروع ہوگئی۔ یہ بحث دو ماہ کے طویل عرصہ تک جاری رہی۔ 5،6 ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے دو روز تک اراکینِ قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل بیان پیش کیا۔ بالآخر وہ مبارک گھڑی آئی جب 7 ستمبر 1974ء کو 4 بج کر 35 منٹ پر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے بحث و مباحثہ، سوال و جواب اور ہر پہلو پر مکمل غور و خوض کے بعد قادیانیوں کی حیثیت کا تعین کیا اور متفقہ طور پر قادیانیوں کے دونوں گروہوں (مرزائی اور لاہوری گروپ) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ بلاشبہ رحمت للعالمین محمدﷺ کو خاتم الانبیاء تسلیم کرنا اور آپﷺ کی نبوت کا باب بند ہو جانے پر یقین کامل رکھنا ہی اسلام کی اساس اور بنیاد ہے جس پر دینِ اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ قرآنِ کریم کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی تقریباً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تاجدار ختمِ نبوت حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر مرتد، زندیق، دائرہ اسلام سے خارج، اور واجب القتل ہے۔ اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ منہ کی کھانے کے باوجود قادیانی نچلے نہیں بیٹھے بلکہ انہوں نے اپنی مبلغانہ سرگرمیاں جاری رکھی۔ 17 فروری 1983ء میں مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے ایک مبلغ محمد اسلم قریشی کو مبینہ طور پر مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا تو یہ واقعہ ایک بار پھر بھرپور تحریک کا سبب بنا۔ اس تحریک کے سبب صدر جنرل ضیاء الحق نے 26 اپریل 1984ء کو ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ جاری کیا، جس کے مطابق قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر، قادیانی کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا، اذان دینا، اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنا اور شعائر اسلام استعمال کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔
زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں۔ سات ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے تحفظ ختم نبوت کے عزم کا ایک یادگار اور تاریخی دن ہے۔ ہر سال پوری مسلمان قوم نہایت جوش وخروش اور آقاﷺ کے لیے تن من دھن قربان کر دینے کے جذبے سے سرشار ہو کر 7ستمبر کو یوم دفاعِ ختم نبوت بطور یومِ دفع مرزائیت و قادیانیت مناتی ہے۔
غلامان محمدﷺ کو سدا بیدار رہنا ہے
ہمیں ختم نبوت پر بہت ہوشیار رہنا ہے