“آپی ! ایک نیا بل پاس ہوا ہے جو والدین اور شوہروں کے لیے بڑے مسائل کھڑے کرے گا۔ “موبائل ہاتھ میں پکڑے فیس بک میں مگن ، مختلف پوسٹس اسکرول کرتی چھوٹی بہن نے ایک دم پرجوش ہو کر کہا۔
“آپ کو کیسے معلوم ہوا ہے؟” میں نے پوچھا۔”میں نے فیس بک پر پڑھا ہے۔ یہ دیکھیں۔ اس کےعلاوہ گوگل ڈاٹ کام پر سرچ کرکے بھی اس کا سارا متن (text) پڑھا جا سکتا ہے۔” اس نے جلدی سے سرچ کرکے موبائل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
“گھریلو تشدد بل” کے نام سے کئی تحریریں یکے بعد دیگرے سامنے آتی گئیں۔ پڑھنا شروع کیا تو مارے تحیر کے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ دل کی دھڑکن تھم سی گئی۔ چھوٹی بہن بغور میرے تاثرات دیکھ رہی تھی۔
“یہ کیا؟ اتنا خطرناک بل؟ یہ تو ہمارے خاندانی نظام اور معاشرے کے لیے ٹائم بم کی طرح تباہ کن اور مہلک ثابت ہوگا۔”یہ پہلی سوچ تھی جو اس بل کے مندرجات (articles) پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں آئی تھی۔
“علاوہ ازیں، حیا و حجاب کے شرعی احکامات بری طرح متاثر ہوں گے کیونکہ در پردہ ان پر بھی گہری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔” دل نے ایک اور دردناک صدا لگائی۔
“اب اگر گھر میں ماں باپ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کریں یا شوہر بیوی کو ڈانٹ دے تو انہیں ڈر لگتا رہے گا کہ کہیں اس “تباہی بل” کے اثرات کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔”دماغ نے دہائی دی۔اللہ خیر رکھے! لیکن دل و دماغ یہی سوچتے رہتے ہیں اور لگتا ہے کہ بچوں کی بد زبانی اور بدتمیزی بھی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
شاید وہ بھی اس بل کے نافذ ہونے کے بارے میں “تعلیم یافتہ” ہو چکے ہیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ہو اور انٹرنیٹ تک رسائی بھی ہو تو وہ اپنے اس طرح کے حقوق کے بارے میں بڑی جلدی واقف ہو جاتے ہیں۔ نجانے کن” مصلحتوں” کی خاطر خاندانی نظام کی تباہی کا یہ قانون پاس کیا گیا ہے؟کہ بچے ماں باپ کے گھورنے پر بھی پولیس کو بلا کر انہیں جیل بھیج سکیں گے۔
شوہر کے لیے بیوی سے اونچی آواز میں بات کرنے، مذاق اور دوسری شادی کی بات تک کرنا جرم قرار دیے گئے ہیں۔اس سے خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گیں۔ معاشرے پر اس کے نہایت تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔اس کے نتیجے میں، خاندانی نظام کی تباہی کے ساتھ ساتھ درپردہ حیا و حجاب کا اسلامی و معاشرتی کلچر بھی متاثر ہوں گے۔
اس بل میں کتنے قرآنی احکامات کی شدید ترین خلاف ورزی کی گئی ہے! والدین کے حقوق اور ذمہ داریاں (نرمی و گرمی) ادا کرنے پر مشکلات ، رزق حلال کمانے پر ضرب (کہ ہر صورت بچوں کو جیب خرچ پورا دینا ہے)، شوہر کا بیوی پر قوام ہونے، بوقت ضرورت ہلکی تادیبی کاروائی اور تعدد ازدواج کی مشروط اجازت (عدل و انصاف) وغیرہ کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ان جرائم کے مہلک اثرات صدیوں بعد بھی محسوس کیے جاتے رہیں گے جس کی لپیٹ میں ہم اور ہمارا معاشرہ آنے والا ہے۔
باپ کا “سربراہ” اور “راعی” ہونے کی حیثیت سے اپنے بیوی بچوں سے بنیادی سوالات پوچھنا فطری اور ضروری ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے تھے؟ کہاں گئے تھے؟ کہاں سے آ رہے ہیں؟ پیسے کہاں خرچ کیے ہیں؟ فون پر کس سے بات کر رہے تھے؟ فلاں سے دوستی یا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور اس کے گھر آنا جانا کیوں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ باپ کو اس طرح کی بنیادی باتوں کا علم ہونا چاہیے۔
لیکن اب گھریلو تشدد بل کی وجہ سے یہ سب ذاتیات (privacy) میں مداخلت اور ضرورت سے زیادہ حاکمیت اور ملکیت (possessiveness) تصور کیے جائیں گے اور بیوی بچوں کو ڈانٹنا ڈپٹنا تو دور کی بات، انہیں گھور کر دیکھنا بھی جرم سمجھا جائے ہو گا۔ بچوں کو ناکافی جیب خرچ دینا بھی قابل مؤاخذہ ہوگا۔ بیوی کو طلاق دینے یا دوسری شادی کی دھمکی دینا بھی جرم شمار ہوگا اور بیوی سے “ہراسمنٹ” اور “جنسی استحصال” جیسے جرم کرنے کا معاملہ بھی نہایت خطرناک ہو گا۔
یہ ایسا بل ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ حقوق انسانی سے بھی اس کا تعلق نہیں۔ دنیا کا ہر مذہب، ہر تہذیب، ہر معاشره ماں باپ کی ذمہ داریوں اور حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ اور یہ بل “پرائویسی” اور “پوزیسونیس” کے نام پر باپ کے فرائض سے انکاری ہے۔ اور باپ کا ساتھ دینے والی ماں بھی اس جرم میں اس کے ساتھ “شریک سزا” ہوگی۔
استغفر اللہ و اتوب الیہ۔
غور کریں کہ “گھریلو تشدد بل” میں ماں باپ کے ساتھ کتنی ناانصافی اور زیادتی کی گئی ہے۔ والدین جنہوں نے ساری زندگی محنت و مشقت کرکے اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت کی۔ وہی اولاد بوقتِ ضرورت سختی کرنے پر والدین کو جیل پہنچا سکتی ہے۔ تو پھر انسان ایسی اولاد کے متعلق سو دفعہ سوچے گا بلکہ ان کی پیدائش اور دیگر ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے ہی تیار نہیں ہوگا۔
پھر بچے کی ایک کال پر جیل بھیجا ہوا باپ جب جیل میں جائے گا تو پیچھے اس کے بچے یا بچوں کا کیا بنے گا؟کیا حکومت انہیں سنبھالے گی؟ ان کی تربیت اور کفالت کرے گی؟ انہیں باپ جیسی محبت و شفقت فراہم کرے گی؟کیا اس کے بعد ماں تمام ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کر سکے گی؟
کیا پھر ماں بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر بچوں کے ہاتھوں ذلیل کرکے ایک کال پر جیل بھیجی جائے گی؟اور پھر سزا پوری کرنے کے بعد جب باپ جیل سے رہا ہوگا تو کیا پھر وہ دوبارہ کبھی اپنے بچے سے مؤدت و رحمت کا معاملہ رکھے گا؟ کیا وہ انہیں اپنا سگا سمجھے گا یا دشمن؟کیا دوبارہ کبھی یہ خاندان پہلے کی طرح متفق و متحد ہو کر زندگی گزار سکے گا؟ اسی طرح اگر بیوی شوہر کو ایک کال پر جیل بھجوا سکتی ہو تو شوہر پھر شرعی و قانونی طور پر شادی کرنے اور بیوی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار ہی نہیں ہوگا۔
ایسی صورت حال میں بغیر نکاح و شادی کے، جنسی تعلقات رکھنے کے نتیجے میں مرد تو آزاد رہے گا لیکن مغربی عورت کی طرح مشرقی عورت بھی “سنگل پیرنٹ” بننے پر مجبور ہوجائے گی۔ خود جاب کرکے کمانا ، بچوں کی اکیلے پرورش و تربیت کی ذمہ داریاں اٹھانا اور بڑھاپا اولڈ ہاؤس میں گزارنا اس کے لیے نفع کا سودا ہو گا یا نقصان کا؟
خود باپ کی محبت و شفقت اور نرمی و گرمی سے محروم اولاد کی پرورش اور تربیت کس طرح ہوگی؟کیا وہ معاشرے کا ایک اچھا اور نافع شہری بن سکے گا؟کیا وہ اپنے والدین یا صرف والدہ کے لیے صدقہ جاریہ بن سکے گا؟ بہت سے سوالات دل و دماغ میں ابھرتے ہیں اور جوابات کے نام پر بھیانک حقائق چھوڑ جاتے ہیں۔بہر حال اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ یہ بل غیر فطری اور غیر قانونی ہے۔ کیونکہ یہ قرآن وسنت کے خلاف ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس بل کو بلا رد کیے بغیر کسی اختلاف کے پاس کر دیا ہے جبکہ ایک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے ایک نمائندے نے اسے نہ صرف مسترد کیا بلکہ ایوان کے اندر اس کی شدید مذمت کی اور عوام تک اس کی حقیقت پہنچائی۔ قوانین معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لئے ہوتے ہیں لیکن اگر یہ قوانین مذہبی تعلیمات، معاشرتی و تہذیبی اقدار و روایات کے مطابق ہوں تو قابل عمل اور فائدہ مند ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام ہر طرح کے ظالمانہ طریقوں اور تشدد کو ناپسند کرتا ہے ۔ اسلام “حقیقی” گھریلو تشدد کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ اس کی بہترین تعلیمات یہ ہیں کہ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں تشدد کے بجائے شفقت و محبت، عزت و احترام ہونا چاہیے۔ اسی طرح بیوی کے ساتھ بھی سنت رسول اکرم ﷺ کی پیروی میں بہترین رویہ ہونا چاہیے۔ ایک محفوظ اور مضبوط خاندان کی تشکیل و تعمیر میں یہ بنیادی عناصر ہیں۔
حکومت کے پیش کردہ گھریلو تشدد اور انسداد بل میں موجود شقوں میں جہاں جہاں اسلامی تعلیمات کے خلاف معاملات ہیں، انہیں درست ہونا چاہیے۔ قانون ساز اداروں کو معاشرتی و دینی دائرے کے اندر رہتے ہوئے ایسے قوانین مرتب کرنے چاہئیں جو گھریلو تشدد روکنے کے لیے مؤثر اور قابل عمل ہوں۔
ہمارے ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کی غلطی سے ایسا قانون پاس ہو چکا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے صریحاً خلاف ہے جس میں واضح طور پر درج ہے کہ “اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا۔”
یہ بات دل و دماغ کو امید دلاتی ہے کہ قرآن و سنت سے متضاد یہ قانون ختم ہو کر رہے گا ان شاءاللہ۔ لیکن اس کے لیے ہمیں تمام کوششیں اور طاقتیں وقف کرنی پڑے گی۔
پڑوسی ملک افغانستان میں جہاد کی برکات نے معاشرے بلکہ پوری اسلامی دنیا میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ غیور افغانیوں نے سعی پیہم سے سپر پاور امریکہ کو مکمل شکست دے کر اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے تو ہم بھی کم ازکم یہود ونصاریٰ کی تہذیب اور پراڈکٹس کا مکمل بائیکاٹ کر کے انہیں معاشی طور پر دیوالیہ کر سکتے ہیں جن کے لیے کام کرنے والے نام نہاد مسلمان اسلامی معاشرے میں ایسے قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ معاشی بائیکاٹ ایسی اقوام کی اصلاح کا ایک سبب بن سکتا ہے۔
ع مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ