جب بھی کوئی عورت کچھ کام کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہی کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ محترمہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ یہاں عورت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔ تو میں اکثر سوچتی تھی کہ اگر یہ مردوں کا معاشرہ ہے تو کیا اکیلی عورت کچھ نہیں کرسکتی ؟
تو پھر وہ عورت کیا کرے جس کے سر پر شوہر کا سایہ نہ رہے اور سسرال والے چار پانچ بچوں کی تعلیم تو دور کی بات کھانے پینے اور رہائش کی ذمہ داری بھی قبول نہ کریں اور گھر سے نکال دیں تو وہ عورت کہاں جائے؟ یا جن لڑکیوں کا کوئی بھائی نہ ہو یا جن کا ہومگر وہ ان بہنوں کی ذمہ داری نہ اٹھائے تو وہ کیا کریں؟ زندہ رہنے اور بنیادی ضروریات کے لئے وہ کس کے پاس جائیں ؟ کیا وہ بھیک مانگیں؟
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا مردوں کے معاشرے میں ایک عورت کو کوئی بھیک بھی شرافت سے مانگنے دے گا؟یا پھر عورت عزت وذلت کی پرواہ کئے بغیر خود بھی غلط راستہ اختیار کرے اور بچوں کو بھی اسی راستہ پر چلائے تاکہ زندگی کی گاڑی آگے چلتی رہے؟
تو کیا یہ معاشرہ اس کے غلط راستہ کو اختیار کرنے کے بعد اسے اور اس کے بچوں کو یا ان بے سہارا لڑکیوں کو وہ مقام دے سکتا ہےجو ان کا حق ہے؟ درحقیقت یہ سوچ ان زمانہ جاہلیت کے دور کی جاہلانہ سوچ ہے جن کے دلوں میں نہ ایمان کا نور تھا اور نہ علم کی روشنی ۔ وہ عورت کو ایک استعمال کی چیز سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے
جبکہ ایک اسلامی معاشرہ میں عورت کو بھی وہی اہمیت ومقام حاصل ہے جو ایک مرد کو حاصل ہے۔
کیونکہ قرآن وحدیث میں جب علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا تو مرد اور عورت دونوں پر فرض کیا گیا ۔ جب شرم گاہ کی حفاظت کی بات کی گئی تو دونوں کو یکساں ایک ہی انداز میں حکم دیا گیا۔ جب نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تو بلاتفریق دونوں کو سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی۔ تو پھر کسی عورت کو اس کے جائز حقوق سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔
اسلام نے عورت کو بھی زندگی بہتر انداز میں گزارنے کا حق دیا ہے۔ تو پھر نوکری کرنے کے لئے نکلنے والی عورت پر تہمت لگانا اور الزام تراشی کرنا، اس کو بدکردار کہنا ، یا اس کی عزت کو پامال کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ بےشک کچھ عورتیں اپنی حدود سے تجاوز کرنے والی ہوتی ہیں مگر ہر عورت کو اسی زا ویہ سے دیکھنا کہاں کی شرافت یا معزز ہونے کا ثبوت ہے۔
زمانہ جاہلیت میں بھی کچھ عورتوں نے تجارت بھی کی اور تعلیم بھی حاصل کی ۔ مگر اپنی حدود اور اپنے مقام کو پہچان کر زندگی میں ایک باعزت زندگی گزاری۔ جس کی سب سے بڑی مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔
اسلامی معاشرے میں ایک عورت کے مثبت کردار کی حیثیت سے اپنا فرض نبھانے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے کی عورت ہی تھی جس نے میجر عزیز بھٹی شہید جیسے بہت سے بہادر اور وطن پر قربان ہو جانے والے بیٹوں کی تربیت کی اور حوصلہ وہمت کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک زندہ جاوید رہنے والے ہیں اور 1965 کی جنگ میں شہید ہونے والوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف 1965 بلکہ دیگر جنگوں میں ملک کی آزادی کے چراغ روشن رکھنے کے لئے اپنی جان کی قربانی دے کر ثابت کردیا کہ وہ ایک اسلامی معاشرے کی ان ماؤں کے بیٹے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو اسلام کی بقا کی خاطر اور وطن پر قربان ہو جانے کا درس دے کر تعلیم و تربیت کےزیور سے آراستہ کیا۔
مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد اور بہت سی ایسی ہی عظیم شخصیات کی مائیں جنہوں نے اپنی اولاد کو اسلام کی روشنی کو پھیلانے کی ایسی تعلیم ورہنمائی کے ایسے چراغ روشن کئے جن کے جلائے ہوئے چراغوں سے ہزاروں چراغ روشن ہوئے اور رہتی دنیا تک روش ہوتے رہیں گے۔
یہی وہ مائیں تھیں جن کو نہ شہرت کی خواہش تھی نہ دولت کا لالچ۔ جنہوں نے اپنا کردار اس خوبصورتی سے ادا کیا کہ جب تک ان کی اولاد کے ناقابل فراموش کارنامے وطن اور اسلام کی حفاظت اور کامیابی کے لئے مشعل راہ بنے رہیں گے لوگ ان ماؤں کی عظمت وحو صلہ کو سلام پیش کرتے رہیں گے۔
اسلامی معاشرے کی عورت کا کردار اس کی اولاد کی صورت میں دنیا کے سامنے ایک روشن مثال کی طرح اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اسلام پر مٹ جانے والے جگر کے ٹکڑے یقینا ایک باہمت ، باحوصلہ اور باکردار عورت ہی کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ اسلامی معاشرہ کی عورت بظاہر منظرعام پر آئے یا نہ آئے وہ اپنے فرض سے بخوبی واقف ہے اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل ہے۔
آج اس بگڑے ہوئے معاشرہ کی بگڑی ہوئی شکل کو سنوارنے کے لئے آج کی عورت جس محنت اور حوصلہ سے نہ صرف زمانے کے سردوگرم حالات کا مقابلہ کررہی ہے بلکہ معاشی جدوجہد میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے اپنی گھریلوں ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھا رہی ہے۔
اور اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر قائم کرنے میں اپنے شوہر، بھائی اور باپ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی کو پھیلانے میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل ہے۔
اسلامی معاشرے کی عورت کے حوصلے اور ہمت کا مقابلہ کسی دوسرے معاشرے کی عورت سے کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے کیونکہ دوسرے معاشرے کی عورت اگر کامیابی حاصل کرتی ہے تو کوئی کمال نہیں کیونکہ وہ اپنے ہر فیصلہ کے لئے آزاد اور خودمختار ہوتی ہے۔
جبکہ اسلامی معاشرے کی باعزت اور باکردار عورت نہ صرف اللہ کی بتائی ہوئی حدود کی پابند ہوتی ہے بلکہ اپنی زندگی کے ہر دور میں اپنے خاندان کی اہمیت وافادیت کو سمجھتے ہوئے قدم قدم پر ایک ان دیکھی زنجیر میں بندھی ہوئی ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے باپ پھر بھائی اور شادی کے بعد شوہر اور ماں بن جانے کے بعد بیٹوں کی عزت اور مرضی وخواہشات کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے فرائض کی ادائیگی اس خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے اپناا نفرادی کردار ادا کرکے اپنی ایک شناخت اور اہمیت سے ثابت کردیتی ہے کہ
ہمت مرداں مدد دے خدا
یہ ہے اسلامی معاشرے کی عورت جو ماں ہو تو محبت کا سرچشمہ، بیٹی ہے تو اللہ کی رحمت ، بہن ہے تو ایک مخلص اور بہترین دوست، بیوی ہے تو ہر طرح کے حالات میں ساتھ نبھانے والی غمخوار، ہمدرد، مخلص ساتھی کی حیثیت سے اپنا فرض نبھانے والی۔
اپنی نسل کی پرورش اور اس کی نشونما کے لئے اپنی ہستی تک کو مٹانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔عورت کو اللہ نے کمزور ضرور کہا ہے مگر اس کو کمزور سمجھ کر اس کو پامال کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا بلکہ مرد کو اس سے محبت اور اس کی عزت کا محافظ بنایا ہے اور یہی وہ ذمہ داری ہے جس کی بنیاد پر مرد کو ایک درجہ بلند کیا ہے اور جو مرد بحیثیت باپ، بھائی، شوہر یا بیٹے ہونے کا فرائض ادا نہیں کرتے ان کو اس ایک درجہ کی بنیاد پر عورت کوحقیر وذلیل سمجھ کر ان کے کردار پر تہمت لگانے کا حق نہ اللہ نے دیا ہے نہ مذہب اسلام نے ۔
اسلامی معاشرے کی عورت بہت عظیم اور معتبر ہے کیونکہ وہ کسی ایک کی نہیں بلکہ عورت ہونے کی حیثیت سے سب کی ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی ہے ۔ اور اس کی عزت کرنے کا حکم اسلامی معاشرے کے ہرمرد پر فرض کیا گیا ہے۔ اسلامی معاشرے کی عورت کو بھی عزت واحترام کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقعہ فراہم کرنا حکومت وقت پر لازم ہے۔