ابتدائے آفرینش سے انسان علم کا متلاشی رہا ہے ۔علم ہی کی بدولت انسانی زندگی میں خوش گوار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔انسانوں نے علم کو مختلف ذرائع بالخصوص قلم اور قرطاس کی مدد سے اکٹھا و محفوظ کیا۔یہ ہی ذریعہ اگلی نسلوں تک علم کی منتقلی کا کارگر وسیلہ بھی ثابت ہوا۔تعلیم وتدریس ایک قدیم پیشہ ہے۔قدیم مدارس سے دور جدید کے اسکولوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نظام تعلیم میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے اس عہد جدید میں ابھی گرماگرم مباحث جاری ہیں کہ کیا ٹیکنالوجی اساتذہ کا متبادل ثابت ہوگی؟ کیا درس و تدریس کا پیشہ اب زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ پائے گا ؟یہ سوالات ،شک و شبہات اس لیے سر اٹھا رہے ہیں کہ روبوٹس اساتذہ کے مقام پر درس و تدریس کے فرائض انجام دے سکتے ہیں بلکہ چند مقامات پر یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ان مباحث سے کم و بیش یہ نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ طلبہ کا اساتذہ پر انحصار بہت کم ہوجائے گا کیونکہ اب حصول علم کے بہت سے متبادل ذرائع موجود و دستیاب ہیں۔روایتی تعلیم یا قدیم تعلیم کا مرکز و محور اساتذہ ہواکرتے تھے ۔درس و تدریس کا پورا کام ان ہی کے کندھوں پر عائد تھا لیکن فی زمانہ طلبہ حصول علم کا سفر ازخودانجام د ے سکتے ہیں۔ جدید تعلیم نے استاد کے رول و کردار کو بڑی حد تک بدل کر رکھ دیا ہے ۔درس و تدریس کے اس بدلتے منظر میں اساتذہ کے رویوں،استعداد اور مہارتوں میں تبدیلی انتہا ئی اہم ہے۔اساتذہ کو ٹیکنالوجی سے مربوط تعلیم، جدید تکنیک پر مبنی درس و تدریس اور اکتساب کے طریقوں کو سیکھنے کے لیے خود کو تیارکرنا ہوگا۔حصول علم اور معلومات تک طلبہ کی رسائی کو انٹرنیٹ،اسمارٹ فونز اور گوگل تلاش(گوگل سرچ) نے بہت آسان بنا دیا ہے۔بیشک اساتذہ کا درس و تدریس میں پہلے کی طرح فعال کردارنہیںہو گا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا کردار بالکل ناپیدہو کر رہ جائے گا۔
اساتذہ کو معتبر معلومات آن لائن مہیاکرنے ہوں گے تاکہ انٹرنیٹ کی مددسے طلبہ ان تک آسانی سے پہنچ سکے۔ طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں اور دلچسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو نہ صرف مواد مضمون تخلیق کرنا ہوگا بلکہ ان کی آن لائن فراہمی کوبھی یقینی بنا ہوگا۔ معلومات کو پاورپوائنٹ ،ای بکس،ویڈیوز،آن لائن کوئز(معموں) کی صورت میںآن لائن فراہم کرتے ہوئے یہ سب کام اساتذہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ کمرئہ جماعت کی حدیں اب متعین و محدود نہیں رہیںبلکہ کلاس روم کے حدوداب ٹوٹ چکے ہیں۔ جس طرح سے ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم سے بیک وقت ہزاروں لاکھوں طلبہ عالمی سطح پرفیض یاب ہورہے ہیں اسی طرح اساتذہ کو بھی اپنے علم کو اب ساری دنیا تک پہنچانے کی پوری آزادی حاصل ہوگئی ہے۔
اکیسویں صدی
اکیسویں صدی میں تعلیم کا زیادہ تر زور زندگی اورپیشہ وارانہ( کیرئیر سازی) مہارتوں کو سکھانے میں معاون اختراعی مہارتوں،معلومات ،میڈیا (وسائل) اور ٹیکنالوجی پر صرف کیا جارہاہے۔آج طلبہ کو اپنی تمام تر توجہ وتوانائی منضبط علم(Disciplinary Knowledge)،ترسیل و مواصلات(Communication)،خول سے باہر جھانکنے،غورو فکر،تنقیدی سوچ ،مسائل کا حل اور دریافت و کھوج(Sense of Inquiry)جیسے علوم و و فنون سیکھنے میں صرف کرنی چاہیے۔ یہ بات مصدقہ ہے کہ نئی نسل ٹیکنالوجی کی دیوانی ہے ،یایوں کہیئے کہ یہ ٹیکنالوجی سے متاثر یا اس کی عادی ہوچکی ہے۔یہ خوب ہے یا نا خوب یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ان وسائل سے بچوں میں توجہ اورانہماک کا فقدان ضرور پیدا ہوا ہے۔آج کا طالب علم الجھن ،خلفشاراور پریشانی کا شکار ہے۔دور جدید کے طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے آج اساتذہ کو ایک منصوبہ ساز(Planner)،وسائل فراہم کرنے والا،ڈیجیٹل رہبر،مہندس(Digital Instructor)،ٹیکنالوجی سے محبت کرنے والا، تاحیات ڈیجیٹل لرنر(Lifelong digital Learner)اور ایک حقیقی پیش گو کی طورپر اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔طلبہ کی طویل تعلیمی ضروریات و خصوصیات کی تکمیل اور انھیں مطلوب مہارتوں سے لیس کرنے کے لیے اساتذہ کو لازمی طورپر کمپیوٹر خواندگی(Computer Literacy) حاصل کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ حرف وصوت اور صورت پر مبنی اکتسابی مواد (Audio Visual Learning Content) بھی تخلیق وتیار کرناچاہیے ۔تعلیمی ویڈیوز میں عبارت کے علاوہ تمام متعامل،باہمی گفت و شنیدکا مواد جیسے صوت(آواز) صورت (Image)،حرکت پذیری(Animation) اور ترسیمی وضاحتوں(Graphics)کو شامل کیا جاتا ہے۔دراصل یہ وہ اجزاء ہیں جو جدید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز(سماجی رابطے کے ذرائع)جیسے فیس بک،واٹس ایپ،انسٹاگرام وغیرہ کو مقبول بناتے ہیں اور اسی وجہ سے طلبہ انھیں پسند بھی کرتے ہیں۔
آن لائن تعلیم کو درپیش مسائل
آن لائن تعلیم میں حائل سب سے بڑی دشواری ناقص انٹرنیٹ رابطہ (کنکشن ) کی ہے اور یہ مسئلہ تقریباًسبھی ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہے۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر کمپیوٹر خواندگی بھی کم ہی پائی جاتی ہے۔آن لائن تعلیم کی بنیادی خرابیوں میں سے نمایاں خرابی طلبہ اور اساتذہ کے درمیان جسمانی تعامل کافقدان بھی ہے۔آن لائن تعلیم کے دوران تمام طلبہ ایک کمرئہ جماعت میں موجود نہیںرہتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیم ورک کا فقدان بھی پایاجانا لازمی امر ہے۔ورچول کام میں طلبہ کے درمیان غیر رسمی گفتگو بہت کم ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان میں جذبہ ہمدردی و صلہ رحمی بھی کم ہی فروغ پاتا ہے۔اس کے علاوہ طلبہ کو درپیش کسی مشکل مسئلہ کے حل میں جسمانی دور کی وجہ سے استاد فوری مدد فراہم کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ مزید اس کے ایک مخصوص عمر کے بعد اساتذہ میں نئی تدریسی مہارتوں کو سیکھنے کا رجحان ،میلان اور دلچسپی بھی کم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اساتذہ اپنے آپ کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
کمزور انٹرنیٹ کنکشن،برقی اور عوام کمپیوٹر خواندگی کی خرابی طلبہ کو وقتی مدد کا فقدان طلبہ اور اساتذہ کے درمیان جسمانی تعامل کا فقدان جذبہ اشتراک و ہمدردی کا فقدان اساتذہ میں رغبت و محرکہ کی کمی ٹیم ورک کا فقدان حالیہ تجربات اور مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آن لائن تعلیم اپنے فوائد اور تاثیر پذیر ی کے دم پر تمام درپیش مسائل اور چیلنجز کو بخوبی عبور کرلے گی۔اساتذہ برادری اسی بناء پر آن لائن تعلیم کی معید نظرآتی ہے۔وباء اور وبائی امراض کا بہت جلد خاتمہ ممکن ہے اور یہ ختم بھی ہوجائیں گے لیکن آن لائن تعلیم انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں نہ صرف قائم رہے گی بلکہ اس کی مقبولیت میں ہر دن اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
آن لائن تعلیم کے چند فوائد ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں۔
1۔آن لائن تعلیم میں لچک پائی جاتی ہے اس کے علاوہ یہ آسان اور سستی بھی ہے۔
2۔یہ طریقہ تعلیم علاقائی حدود سے ماورا ہے۔اس کی رسائی کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔
3۔آن لائن تعلیم سلف پیسڈ ہے۔سلف پیسڈ تعلیم سے مرادایک ایساتعلیمی نظام جس میں طلبہ کو اپنی رفتار سے اکتساب(آموزش)کا موقع دیا جاتا ہے۔
4۔مختلف النوع نصاب دستیاب ہیں جنہیں بہت آرام و سکون کے ساتھ مکمل کیاجاسکتا ہے۔
5۔آن لائن تعلیم قابل تکرار ہوتی ہے۔کیونکہ آن لائن تعلیم میں مستعمل ذرائع اور تدریس کو محفوظ (Record)کرلیاجاتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ جس قدر اور جتنی بار چاہے اس سے استفاد ہ کرسکتے ہیں۔
اساتذہ اگر مثبت رویوں کو اختیار کرلیں تو بہت ہی مختصر مدت میں وہ خود کو آن لائن تدریسی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرسکتے ہیں۔ایک مرتبہ جب اساتذہ تکنیکی مہارتوں سے ہم آہنگ ہوجائیں گے تو پھر دوسری جماعت یا بیچ کو پڑھانا ان کے لیے بہت آسان ہوجائے گا۔ ٹیکنالوجی اساتذہ کو ڈیجیٹل وسائل و کمرئہ جماعت کے انتظام، انصرام ، جانچ و تعین قدر میں بھی مددفراہم کرتی ہے۔
خلاصہ گفتگو
آن لائن طریقہ تعلیم کو مثبت طریقے سے اپنا جائے توپہلی باریہ کٹھن ضرور محسوس ہوگا، لیکن یہ طریقہ تعلیم تخلیق و اختراع سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ آسان اور سہولت بخش بھی ہے۔ کسی بھی دشواری اور رکاوٹ کوہمت ، استقلال اورحکمت سے سامنا کرتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔آن لائن تدریس کی تیاری میں اساتذہ بالخصوص ٹیکنالوجی سے نابلد اساتذہ کو مشکلیں پیش آسکتی ہیں لیکن مسند تدریس پرایک استاد اس وقت تک ہی فائز رہتا ہے جب تک و ہ طالب علم رہتا ہے ۔جب استاد طالب علم باقی نہیں رہتا ہے تو اس کے اندر کا استاد بھی فوت ہوجاتا ہے۔ تعلیم ،درس و اکتساب کے لیے عمر کی کوئی قید نہیںہے۔عار نہ محسوس کرتے ہوئے اساتذہ جدید تعلیمی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ اور آراستہ کرتے ہوئے ہی بخوبی تدریس فرائض سے عہد ہ براں ہوسکتے ہیں۔
ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ تعلیم کی ہیئت و ماہیت بھی لگاتار تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ سال 2020 کی ابتداء ہی سے ساری دنیا کوویڈ19-وباء سے نالاں و پریشاںہے۔کئی ممالک نے وباء پر قابو پانے کے لیے کاروبار زندگی کو یک لخت لاک ڈائون کے عنوان سے مسدود کردیا۔تعلیمی اداروں کی بندشی سے اساتذہ کے ساتھ طلبہ بھی گھروں تک محدود بلکہ مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔بالمشافہ درس وتدریس اور اکتساب کی راہیں مسدود ہوکر رہ گئی ہیں۔درس و اکتساب کے عمل کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے آن لائن پلیٹ فارمس(ترسیلی رابطوں) جیسے زوم،گوگل میٹ،مائیکروسافٹ ٹیم،ویب ایکس اور کئی دیگر انٹر نیٹ سے مربوط اپلیکیشنز کو بادل نخواستہ استعمال کرنا پڑا۔ اچانک روایتی تعلیم کی مسدودی سے متذکرہ سماجی ترسیلاتی رابطوں کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ طلبہ ٹکنالوجی سے محبت ،رغبت اوروابستگی کی وجہ سے تکنیکی زبانوں، مہارتوں، تکنیکی اصول و ضوابط ا ور کلیات کو بہت تیزی سے سیکھتے اور جذب کرتے جارہے ہیں۔ اس کے برخلاف اساتذہ کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے میں بہت زیادہ دشواریوں ا وردقتوں کا سامناکرناپڑرہا ہے۔بیشتراساتذہ روایتی درس و تدریس باالفاظ دیگر روایتی چاک بورڈ طریقہ تدریس کے ذریعے معلومات کی ترسیل میں مہارت رکھتے تھے اور انھوں نے درس و تدریس میں ٹکنالوجی کے استعمال سے خود کو بڑی حد تک دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دور رکھاتھا ۔عام طور پرتعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے اکثر اساتذہ کو گریزاں ہی دیکھاگیا ہے ۔ درس و اکتساب کی جدید و تکنیکی مہارتوں سے خود کو لیس کرنے میں تامل و تساہل کی عادت نے انھیں غیرمرئی یعنی آن لائن ٹیچنگ (ورچول ٹیچنگ)کی انجام دہی میںپر یشانیوں اور دشواریوں کاشکار کردیا۔ٹیکنالوجی سے بے تعلقی بیشتر اساتذہ کے لئے ایک چیالنج کے صورت قطار اندر قطار مسائل لے کر وارد ہورہی ہے۔
روایتی تعلیم میں تعلیم کا مرکز و محو ا کثرر اساتذہ ہوا کرتے تھے ۔آج تعلیمی صورت حال تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے ۔ایسے محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے دنوں میں معلومات کا حصول اور اخذ و اکتساب کا کام ٹیکنالوجی کی مدد سے طلبہ از خود انجام دینے لگیں۔تعلیم ،درس و اکتساب کی اس انقلابی تبدیلی سے اساتذہ کا موجودہ کردار یکسر بدل کر رہ جائے گا ۔ اساتذہ کی حیثیت ایک معلم و مدرس کے بجائے ایک سہل کار (Facilitator)،اطالیق (Coach,Instructor)وتجزیہ کار(Analyst) کی ہوکررہ جائے گی۔اساتذہ تعلیم وتربیت اوردرس واکتساب میں ٹیکنالوجی کے انضمام کو اگر قبول کرلیتے ہیں تو آن لائن تعلیم دلچسپ اور فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ خوش قسمتی سے مفت اور سستے سافٹ ویئر دستیاب ہیں۔ موبائل فونز اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرس کے ذریعے اور سافٹ وئیر کے استعمال سے گھر پر ہی ریکارڈنگ اسٹوڈیوز کی طرح بہترین ویڈیوز بنائے جاسکتے ہیں۔آج اسمارٹ فونز مربوط انٹرنیٹ کی سہولت بیشتر طلبہ کو کسی نہ کسی صورت حاصل ہے اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے دام الفت میں گرفتار، نئی نسل(طلبہ) ایسے ویڈیوز کو بہت زیادہ پسندبھی کرتی ہے۔طلبہ مضمون موضوع و مباحث کی بہتر تفہیم و ادراک کے لئے ویڈیوز کی رفتار کو کم کرسکتے ہیں، دوبار،سہ بار بلکہ کئی بار انھیں چلاکر دیکھ سکتے ہیں۔مابعدوبائی دور، آن لائن تعلیم دنیا کے لیے نئی ضرورہے لیکن یہ اب ایک عام بات ہوچکی ہے۔اساتذہ کوشکوے شکایات تج کر میدان عمل میں آنے کا وقت ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ ! خدا کیا کرتا ہے