یہ بات سن کر میں بڑا متاثر ہوا تھا اور ایک عرصے تک رہا بھی۔ پھر آپ صلی علیہ وسلم کی تعلیم کی ہوئی تسبیح پر نظر گئی۔ جس میں 33 بار سبحان اللہ 33 بار الحمد للہ 33 بار اللہ اکبرپھرنے کا ارشاد فرمایا گیا غور کیا تو اسی طرح اور بھی کئی وظائف نظروں سے گزرے۔ یہاں دلیل نظر آئی کہ گن کے پڑھنا شرمندگی کا باعث نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے با ذات خود ارشاد فرمایا ہے۔ حکمت عملی کیا ہے یہ مجھ جیسا کم علم انسان نہیں جانتا پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اس لیے اس پرعمل کرنے کے لیے میرے لیے یہ دلیل ہی کافی ہے۔ ہاں اک بات ہے جو میرے علم میں ہے وہ یہ کہ طاق عداد میں پڑھنا ذیادہ بہتر ہے جیسا کہ نماز میں 3 یا 7 بار ہر تسبیح پڑھی جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظریہ کیسے پیدا ہوا کہ گن کر کیوں پڑھیں، کیا خدا سے سودا کرنا ہے؟اگر نظر دوڑائی جائے تو اس طرح کے کاموں میں ہمیں بڑی تعداد “مڈرن مسلمز” کی نظر آتی ہےجواپنی دانشمندی کے سبب ایک نیک کام کو دوسرے نیک کام پر ترجیح دیتے رہتے ہیں اور اس طرح کوئی بھی نیک کام نہیں کرنے دیتے۔
جیسے قربانی سے بہتر ہے کسی غریب کی بیٹی ک شادی کروادی جائے۔ ایک بار حج کرلیا دوبارہ حج کیوں اس سے بہتر ہے لوگوں میں کھانا تقسیم کردو۔ خود کچھ بھی نہیں کرتے یہ الگ بات ہے۔ باتیں کرتے ہیں یہ بھی بھلا کم کام ہے؟
اب اس سے نقصان کیا؟ نقصان یہ کہ کلمات تسبیح سے پڑھنے سے عادت ہو تو تسبیح دیکھتے ہی کلمات پڑھنا یاد آجاتا ہے۔ گویا یہ آپ کے لیے بہترین ریمائنڈر ہوتی ہے۔شائد شیطان کہ لیے یہ ہی بات ناگوار ہے۔ اس لیے شیطان نے اک شعر ارشاد فرمایا اور پبلسٹی کے لیے اقبال رحمتہ اللہ کا نام سیٹ کردیا۔
چھوڑدے تسبیح کو گن گن کے پڑھنا اقبال
اس سے کیا حساب جو بے حساب دیتا ہے۔
شیطان کی کوشش بڑی بہترین تھی پر شعر کے بے وزن ہونے نے کھیل بگاڑ دیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر وقت تسبیح ساتھ رکھنا اچھا عمل ہے۔ اس طرح انسان کو کثرت سے نیک کام جیسے درود پاک، استغفار وغیرہ پڑھنے کی عادت ہوجاتی ہے۔