حق کی گواہی دینا

خود بھی مطالعہ کیجیے اور اپنے بچوں کو بھی مطالعہ کروائیں اور آنے والی جنریشن کو اس بات کی آگہی دلائیں کہ واقعہ کربلا اصل میں تھا کیا ؟ اگر ہم مطالعہ کریں اور غور کریں تو واقعہ کربلا آج کل کے دور سے ملتا ہے کہ اس وقت کا یزید( جو اپنے آپ کو اپنی ذات میں خدا مان بیٹھا تھا اور لوگوں سے بھی یہی امید رکھتا تھا کہ سب اسے خدا مانیں۔ منصب مل جانے کا مطلب یہ تو نہیں کہ حکمراں اپنے آپ کو اپنی ذات میں خدا مانیں۔ منصب آخر ہے کیا ؟

 اگر آج صحیح معنوں میں ہمارے ملک کے لوگ ہمارے ملک کے حکمران بھی منصب کے مطلب پر غور کرلیں تو منصب وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ منصب تو وہ ذمہ داری  ہے کہ خدا کے سامنے ایک ایک چیز کی جواب دہی کرنی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی ذمہ داری ہو یا بڑی سے بڑی ذمہ داری ہو، ذمہ داری بہر حال ذمہ داری ہوتی ہے جس کی جواب دہی ایک ایک بندے پر فرض ہے اور ہم تو ویسے ہی امت محمدیہ میں سے ہیں تو ہمارے اوپر تو یہ بات فرض ہے کہ ( امر بالمعروف ونہی عن المنکر) کی دعوت دینا ہے ہر صورت۔

 جس چیز کو ہم ریاست کہتے ہیں تو ریاست ایسے ہی تو نہیں بنی تھی، ریاست تو وہ تھی کہ جہاں حکمران خود بھوکے رہ جاتے تھے لیکن اپنے سامنے اپنی عوام کو بھوکا نہ چھوڑتے، ریاست تو وہ چیز ہے جہاں حکمران عادل ہوتے ہیں، جہاں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے، جہاں خاموشی کو ظلم سمجھا جاتا تھا، ریاست یہ تھی کہ جہاں کوئی انسان چھوٹی چوری بھی کرتا تو اسکا ہاتھ قلم کر دیا جاتا تھا یہ تھی ریاست مدینہ، یہی بات تھی کہ کل اس یزید کے سامنے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے گھٹنے نہیں ٹیکے، اپنے دین کو نہیں بیچا، اپنے دین کو گرنے نہیں دیا، اور یہ بات ثابت کردی کہ آپکا ووٹ ایک طرح سے گواہی دینا ہے اور گواہی کیسی؟ گواہی تو پھر گواہی ہے ناں، کہ آپ اپنے لیے ایسے حکمراں کو چنے جس کے اندر سچائی، ایمانداری، دیانت داری، ایمان، اور دین اسلام کے اصولوں کو قائم رکھنے والے عادل حکمراں ہونے چاہییں۔

تو وہ عظیم شخصیت امام حسین جنہوں نے دین اسلام کی خاطر اپنی جان لٹا دی صرف اس مقصد کے لیے کہ وہ مقصد فرد کی آمریت کا انکار اور اسلامی دستور کی اہم ترین شق خلافت و شورائیت کا تحفظ تھا۔جب حکم دیا گیا کہ حسین  سے بیعت لی جائے۔ نہیں تو اسے میرے دربار میں حاضر کیا جائے میں اسکا سر قلم کردونگا۔ تو امام حسین نے پوری جرات ایمانی کے ساتھ فرمایا کہ خدا کی قسم میں سر کٹوا لونگا لیکن بیعت نہیں کرونگا۔

یہ تھا ظلم کے خلاف آواز اٹھانا،حق کے خلاف آواز اٹھانا، اپنے دین اسلامی کی خاطر آواز اٹھانا، اپنے دین کو بکنے سے بچانا،ذرا سوچیے! غور کیجیے کہ آج ہمارے درمیان بھی وقت کے یزید موجود ہیں ۔ لیکن ہمارا کیا کردار ہے ؟ ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں اپنے دین کو بچانے کے لیے؟ کیا ہم نے اپنے اسلامی اصول و قوانین کو بچایا ہوا ہے؟ یہ خاموش سوالات ہیں پوری امت مسلمہ سے!

 یاد رہے کہ ہم بحیثیت مسلمان، دین اسلام کی بہت بڑی ذمہ داریوں میں گھرے ہوئے تو ہیں۔ لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے اوپر اس کی جواب دہی کرنا قرض ہے۔دوسروں کو چھوڑ کر اپنا احتساب کیجیے کہ آج تک میں نے اپنے ملک کی ریاست کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن لوگوں کو ووٹ دیے۔ کن لوگوں کو گواہی دی؟ کہیں میں نے وقت کے یزید کے لیے تو گواہی نہیں دی؟ کہیں میں نے نا اہل لوگوں کو ووٹ دیتے ہوئے گواہی دیتے ہوئے  یزید کو لا کر کھڑا تو نہیں کر دیا؟ کہیں میرا ووٹ، میری گواہی یزید تو نہیں بن گئی؟ جائزہ لیجیے۔!!!