حیرت ہے اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے ملک میں اسلام کا جس خوبصورتی سے مذاق بنا یا جا رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ جہاں سلامی قانون نافذ کر نے کے نام پر یہودیوں اور فرعونیت کا قانون نافذ کرکے کافروں سے کم تر اورجہالت کا ثبوت دیا جارہا ہے ۔ کہ ایک مسلم ملک میں قانون کے نام پر عورت کوبے حیائی اور آزادی کا سرٹیفیکٹ دیا جارہا ہے تو دوسری طرف اولاد کو بے راہ روی کے راستے کے دروازے کھول کر اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو پیٹھ پیچھے ڈال کر دنیا کی زندگی ہر رکاوٹ اور پابندی کو نظر انداز کرکے گزارنے کاراستہ ہموار کیا جارہا ہے ۔ کیا قیامت کی تمام نشانیاں پوری ہوچکی، جو تباہی وبربادی کی اس آ گ کو بجھانے والا اس سرزمین پر نہیں بچا جو کوئی ایمان کی طاقت سے اس باطل طاقت کے خلاف جہاد کے لئے نکل پڑے ۔
کیونکہ یہ آگ صرف کسی مخصوص علاقے یا شہر یا ملک کو جلا کر راکھ نہیں کرے گی بلکہ یہ اسلام کو مٹانے ، اللہ کے قانون کی مخالفت کرنے والوں شیطان صفت گروہ کا ساتھ دینا ہے اور تاریخ گواہ ہے جس نے بھی اسلام یا اللہ کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ان کو کیسے صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا ۔ اور ان کے ساتھ وہ بھی جو اس باطل طاقت کا مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو کمزور اور بے بس کہہ کر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔
یہ کوئی مذاق نہیں ہے جس پر خاموش رہا جائے یا کسی مناسب وقت کے انتظار کا بہانہ بناکر اس آ گ کو پھیلنے دیا جائے ۔ یہ قانون پاس نہیں ہوا بلکہ اسلام دشمن کے اغراض ومقاصد کو کامیاب ہونے کا موقعہ فراہم کیا گیا ہے۔ مسلمان قوم کے بچوں کو پہلے میڈیا کے ذریعہ سیدھےراستہ سے بھٹکا یا گیا، پھر کرونا وائرس کے نام پر تعلیم سے دل برداشتہ کیا اور اب تشدد کا لفظ استعمال کرکے ماں باپ کی جائز روک ٹوک اور پابندیوں کے خلاف بغاوت کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے جو صرف اور صرف اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہے-
بحیثیت مسلمان قوم پر اللہ کی عائد کردہ پابندیوں کی حدود ہیں جن میں اولاد پر اللہ اور اس کے رسول کے بعد ماںباپ کی اطاعت فرض ہے اور بہت سے معاملات میں ان پر سختی کر نے کی بھی تاکید کی گئی ہے ۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس میں کسی بھی ایسے قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے جہاں جہالت کی اکثریت ہے جو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں رکھتے، جو اللہ کی عائد کردہ حدود سے واقفیت نہیں رکھتے، جو آزادی اور جائز حقوق کے مفہوم سے آ شنا نہیں ہیں وہ اس قانون سے صرف اور صرف گمراہی کے راستہ کو اختیار کرکے اسلام کی پاکیزگی کو داغدار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔
یہ قانون جن ممالک میں بھی نافذ کیا گیا وہاں کی معاشرتی واخلاقی بربادی سے پوری دنیا آ گاہ ہے۔ جہاں ماںباپ کی حیثیت ایک فالتو اشیاء سے زیادہ نہیں ہے جہاں بیٹی، بہن شرم وحیاء کے مفہوم بے خبر بے حیائی کا اشتہار بنی ہوئی ہیں ۔ جہاں بیوی آ زادی کے نام پر بے حیائی کی تمام حدود کو پامال کرتی نظر آ تی ہے۔ جہاں رشتوں کانہ کوئی احترام ہے نہ مقام ۔
آج اس قانون کے نافذ ہونے کا مطلب ہے کہ نہ اب اللہ کے احکامات کی کوئی اہمیت ہے نہ ماں باپ کی کوئی حیثیت۔ کیو نکہ بے لگام خواہشات کی تکمیل کا سرٹیفیکٹ ہر ایک کے پاس موجود ہ ہے تو پھر کیسی پابندی کیسی رکاوٹ۔ ماں باپ کو اپنی عزت پیاری ہے تو وہ اولاد پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد کریں اور نہ ان کے کسی معاملے میں رکاوٹ کا سبب بنیں۔ بیوی کو آ زادی کے نام پر بے حیائی اور فحاشی سے روکنے کو تشدد کا نام دے کر خاندان اور معاشرے میں ذلت ورسوائی کے خوف سے ایک کٹھ پتلی کی طرح زندگی گزارنی ہوگی۔ اولاد اور بیوی کے سامنے اس کی حیثیت ایک خاموش تماشائی کی سی رہ جائے گی۔ تو ایسا اسلامی معاشرہ جس میں اللہ نے مرد کو باپ ، شوہر، بھائی اور بیٹے کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں دے کر قیامت کے دن جواب دہ ہونے کا پابند کیا ہے کیا وہ مرد اپنی ذمہ داریوں کو اس قانون کی موجودگی میں بخوبی نبھا سکتا ہے؟
اللہ کا واسطہ ہے کہ مومن ایمان والے غزوہِ بدر کے جذبہ کو اجاگر کرکے اسی ایمانی طاقت کے ساتھ اس باطل فتنہ کو پھلنے پھولنے نہ دیں۔ وسائل اس وقت بھی نہ تھے لوگوں کی بڑی طاقت بھی نہ تھی مگر اللہ پر کامل یقین اور بھروسہ ان کی فتح کا سبب بن گیا ۔ آج وہی اللہ ہے جو ایمان والوں کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ بس ضرورت صرف ایمانی جذبہ کی ہے اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے اٹھ کر عملی اقدامات کی ہے آ ئیں اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال کر اللہ کی خوشنودی کا موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اللہ ہمارا حامی ومددگار رہے گا انشاء اللہ