تعلیم بیٹی کا بھی حق ہے

میرا گاؤں عنایت پور ہے۔ یہ ایک بڑا گاؤں ہے۔ جسمیں تقریباً 300فیملیز آباد ہیں۔ زیادہ تر لوگ زراعت سے منسلک ہیں۔یہاں کے لوگ اپنے غم اور خوشیاں ایک دوسرے سے بانٹتے ہیں۔ اور اس گاؤں میں زیادہ تر مکانات کچے ہیں۔اور ہر گھر میں درخت ہے۔ گاؤں کے سنٹر میں ایک مڈل سکول بوائز کیلئے ہے اور کونے میں ایک پرائمری سکول لڑکیوں کیلئے ہے جس میں صرف دو ٹیچرز پڑھاتی     گاؤں میں سب سے مشکل کام اپنی بچیوں کو تعلیم دینا ہے جو کہ بد بختی سے کوئی نہیں کر پاتا-  3دسمبر 2018 کو اقوام متحدہ نے ہر برس 24 جنوری کو تعلیم کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔

 دنیا بھر کی طرح پاکستان میں  آج بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔جس کی گونج صرف سوشل میڈیا پر ہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ جسکے نتیجے میں بہت سے لکھاری حضرات نے کافی مثبت آرا کا اظہار کیا مگر یہ صرف آرا تک ہی رہا کوئی فرق نظر نہ آیا۔

 جہاں تک والدین اس مسلہ کے ذمہ دار ہیں اس سے کہیں زیادہ حکومت اس کی زمہ دار ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں حکومت کو فی الفورتعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت حکومت پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ وار ہے۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک بڑا مسئلہ سکول پہنچنے کیلئے میلوں فاصلہ طے کرنا ہے اور مؤثر ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ ان لڑکیوں کو تعلیم کیلئے پیدل چلنا پڑتا ہے ۔ یہ ایک ایسی وجہ ہے جس سے اکثر لڑکیاں اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں یا انکے والدین انہیں مجبوراً چھڑوا دیتے ہیں۔

ام الخیر کا تعلق ایک نہایت ہی غریب خاندان سے ہے، وہ بچپن سے ہی اپنے والدین سے الگ ہو گئی تھی۔ کیونکہ وہ اس کی پڑھائی کے خلاف تھے۔ اور انہیں ایک ایسی بیماری لاحق ہے جسمیں ہڈیاں انتہائی کمزور ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا عزم نہیں ٹوٹا۔انہوں نے انڈیا کی سول سروسز کیلئے کوالیفائی کیا ہے۔بی بی سی اردو کے ساتھ  فیس بک لائیو شو میں شرکت کرتے ہوئے انہوں نے کہا میرے والد سڑک کے کنارے کپڑے بیچتے تھے اور میری سوتیلی ماں مجھے پڑھانے کے خلاف تھیں۔ لیکن میں نے اپنی ضد نہیں چھوڑی بات یہاں تک پہنچی کہ مجھے ان سے الگ ہونا پڑا اس وقت میں نویں کلاس میں تھی۔

 بچے سکول جانا چاہتے ہیں اور والدین بھی پڑھانا چاہتے ہیں مگر حکومت ان غریبوں کیلئے کچھ نہیں کرتی نہ یہ لوگ اپنے بچوں کی نہ بھوک مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں سکول پڑھا سکتے ہیں۔

 کراچی سے تعلق رکھنے والی تین بچوں کی ماں 30 سالہ رخسانہ کے خاوند بیماری کے باعث کام کرنے سے قاصر ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ غربت اور حکومت کا رویہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ(ایچ آر ڈیبلیو)  کی جانب سے  جاری کردہ رپورٹ  جاری کی گئی جس میں پاکستان کی بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں کمی پر تحقیق کی گئی۔

سروے کے مطابق پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم فراہم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسکولوں کی تعداد میں کمی ہے۔پرائمری سکول جانے والی عمر کی 32 فیصد بچیاں سکولوں سے باہر ہیں جبکہ 21 فیصد بچیاں سکول نہیں جاتیں نویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکولوں میں طالبات کی تعداد صرف 12 فیصد رہ جاتی ہے۔

  پرائمری سکولوں کی حد تک تو کچھ اسکول موجود ہیں لیکن جیسے جیسے بچیاں اگلی جماعتوں میں جاتی ہیں، ان کے سکولوں کی تعداد میں کمی بڑھتی جاتی ہے۔اسکے علاوہ دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہے کیونکہ نہ صرف وہاں سکولوں کی تعداد بہت کم ہے اور جو ہیں بھی ان میں سے بیشتر صرف لڑکوں کے ہیں۔

 تعلیم کے فقدان کی وجہ سے جنسی تفریق، تعلیم کی کمی، حقوق اور عزت کے سلب کیے جانے، پدرسری نظام، آئینی حقوق سے لا علمی، فیصلہ سازی اور اظہار کی آزادی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

  موسٰی خیل کے علاقے میں عورت کو مرد جیسا کھانا کھانے کا حق بھی نہیں ہے۔ بوٹی مرد اور شوربہ عورت کے حصّے میں آتا ہے۔ چائے میں دودھ بھی مرد کو ملتا ہے جبکہ عورت قہوے پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔اس بارے میں ماہرین کا خیال ہےکہ تعلیم ہی مردوں کے ذہن بدل سکتی ہے، اور عورت کو معاشرے میں اہم مقام دلوانے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔خدارا اپنی بیٹیوں کو تعلیم دو آپ کی لڑکیاں آپ کے لڑکوں سے کمتر نہیں ہیں قانونی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی ان کی صلا حیتوں اور ٹیلنٹ کو حقیر مت جانیئے۔