بیت المقدس کس کا؟

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول وہ قبلہ اول جہاں محمدمصطفیﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کی جہاں کے بعد آپ کا سفر معراج شروع ہوا اس وقت سے یہ مقام مسلمانوں کے لیے بے پناہ عزت و مقام رکھتا ہے حقیقت ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ یہودونصاریٰ سب کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے یہودی عقیدہ کے مطابق ان کے آخری بادشاہ کا ظہور بھی یہیں سے ہوگا جب کہ عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیؑ ٰ کو یہی صلیب پر چڑھایاگیا تھا اسی وجہ سے عیسائی بھی اس مقام کو بہت اہمیت دیتے ہیں جبکہ یہودیوں کے مطابق ایک وقت آئے گا جب پوری دنیا میں صرف یہودیت کا بول بالا ہوگا اور اسرائیل اس کا مرکز ہوگا اسی بنا پر یہودیوں کی یہ سازش ہے کہ وہ اپنی سلطنت کو وسیع سے وسیع تر کریں جس کی بنا پر وہ فلسطین پر تو قابض ہیں ہی مگر اس کا رادہ شام،مصر اردن اور کافی دور تک جاتا ہے اسی سازش کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر عرب کی ساحلی پٹی میں مسلمانوں میں آپس میں خانہ جنگی شروع کروائی اور اب اس سازش کا آخری مہرہ استعمال کرتے ہوئے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے فیصلے سے کردیا آپسی لڑائی سے چونکہ مسلمان اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ انہوں نے اس فیصلہ کے خلاف چپ سادھی ہوئی ہے صرف ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے آواز اٹھائی اور ترک صدر رجب طیب اردوگان نے اسرائیل کو للکارا ۔ ٹرمپ اور اسرائیلی انتظامیہ کا خیال ہے کہ مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہرے فیصلے کا طبعی رد عمل ہے۔ اس فیصلے کے بعد لوگوں کا سڑکوں پر نکل آنا فطری تھا مگر وہ یہ صدمہ آہستہ آہستہ جذب کرلیں گے۔پھر حالات معمول کے مطابق آجائیں گے۔ ٹرمپ اور اسرائیلی انتظامیہ کا گمان اگرسچ ثابت ہو ا تو مسلم امہ اپنے ہر قضیہ سے دستبرداری کے لئے تیار ہوجائے۔امت کے مرکزی قضیہ پر کاری ضرب کا صدمہ کو جذب ہونے کے منتظر اس کے بعد خاموش نہیں رہیں گے۔ پھر ایک دن اسی طرح کا ایک اور اعلان ہوگا کہ اسرائیل اپنے مبینہ دار الحکومت میں مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کر رہا ہے۔ مسلم امہ کا جذبوں میں اس قدر شرمناک جمود نہیں ہوسکتا۔ شر کے بطن سے خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے۔یہ امت مسلمہ ہے جو قیامت تک موجود رہے گی اور جسے دنیا کی حکمرانی کر نی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا ہر گمان جھوٹا ثابت ہوگا کہ سڑکوں میں احتجاجی جلوس نکالنے والے مسلمانوں کا جذبہ سرد نہیں پڑے گا۔ یہ ریلیاں سیلاب ثابت ہوں گی اور امت کے خلاف سازشیں بننے والوں کو بہالے جائیں گی۔ ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ کا گمان ہے اور دوسری طرف امت کے خیر خواہوں کا گمان، اب وقت ہی بتائے گا کہ امت کس کے گمان پر پورا اترتی ہے۔پاکستان میں بھی مذہبی جماعتوں نے اس عمل پر فوری ردعمل دیا اور شہر شہر میں احتجاج و مظاہرے شروع کردیے فیصلے کے اگلے دن جماعت اسلامی کراچی نے ایک ہنگامی احتجاجی مظاہرہ کیا اس کے بعد دفاع پاکستان کونسل کی جانب سے ایک فلسطین کارواں نکالا گیا اور اب جماعت اسلامی نے 17دسمبر کو القدس ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کردیا ہے قائدین جماعت کے مطابق یہ عالم اسلام کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوگا اب یہ جماعت اسلامی کے کارکنان کے علاوہ کراچی کے ہر شہری کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس مارچ میں شریک ہوکر آواز اٹھائیں کیونکہ آپ فلسطین تو نہیں جاسکتے مگر 17دسمبر کو ۳ بجے حسن اسکوائر تو آسکتے ہیں اور اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف آواز تو اٹھاسکتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں