کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے انسانی وسائل پر ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جو ترقی میں اپنا تسلسل برقرار نہ رکھ سکیں اس کابنیادی سبب انسانی وسائل کی کمی تھی۔بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے خطرات سے خوفزدہ ہو کر بعض ممالک نے آبادی کی روک تھام کے لیے پالیسیاں ترتیب دیں مگر بعد آبادی میں واضح کمی واقع ہونے کی وجہ سے انہیں پالیسیوں کو تبدیل کرنا پڑا۔آپ چائنا کی مثال لیجئے جہاں کافی سالوں تک دو سے زائد بچے پیدا کرنے پر پابندی عائد تھی مگر جب اعداد و شمار نے آبادی میں کمی کو ظاہر کیا تو حکومت کے کان بھی کھڑے ہوگئے اور اس نے اس پابندی کی حد 3 بچوں تک مقررکردی۔
امریکہ میں یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوولوشن کے شایع تحقیقی جریدے دی لینسیٹ میں آبادی سے متعلق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں شرح پیدائش کی رفتار یہی رہی تو اکیسویں صدی کےخاتمے پر دنیا بھر کی آبادی نصف رہ جائیگی۔
اگر کسی ملک کے مالی وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوں تو بے شمار معاشی اور معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔اسی تناظر میں معاشی ماہرین آبادی کی شرح کو سست رکھنے پر زور دیتے ہیں۔اور ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جس پر عمل پیرا ہوکر ایک مدت میں آبادی کی رفتار کو کنٹرول تو کر لیا جاتا ہےلیکن ان پالیسیوں اور قانون سازی کی بدولت طویل عرصے بعد ملک میں انسانی وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور دیگر مسائل جنم لینے کے خطرات منڈلاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق”ملک کے معاشی اور مالی نتائج کا دارومدار آبادی کی شرح کی اُتار چڑھاؤ پر ہے۔جو کہ معاشی نمو اور وسائل کے استعمال کو برابری کی سطح پر لاتا ہے۔آبادی کی شرح میں ہی میں ملک میں بڑی عمر کے افراد کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ورکنگ کلاس کی قلّت اور جی ڈی پی میں کمی واقع ہوتی ہے ”
دنیا بھر میں حالیہ مردم شماری اور تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دنیا بھر میں آبادی کی شرح میں واضح کمی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ سب سے زیادہ گنجان ممالک مثلا افریقہ اور سب سہارنمیں آبادی کا گراف نیچے آیا ہے اس کی نمایاں وجوہات خواتین کی تعلیم تک رسائی اور معاشی حصہ داری ہے اور مانع حمل ادویات اور اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔
گزشتہ سال 2020 میں اکنامکس انوویشن گروپ کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی جس میں امریکہ کے انسانی قوت کا تخمینہ لگایا گیا کہ امریکہ میں آبادی کی نوجوان اکثریت جاپان کی مانند کم ہو رہی ہے۔ بوڑھےافراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور حکومت کی سماجی امداد اور میڈکیرجیسے سپورٹ فنڈ قائم کر نا اوّلین ترجیح بن گئی ہے۔اس ریسرچ میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ 2037 تک دنیا کے تین تہائی ممالک کے پاس انسانی قوت ضعف العمر افراد ہونگے۔
کینیڈا میں شرح پیدائش میں واضح کمی آئی ہے۔اس کے پیش نظر حکومت شرحِ آبادی میں اضافے کے لیے کارگر اقدامات کر رہی ہے کینیڈا میں لائف ایکسپکٹانسی کی شرح ۹.۱ فیصد ہے۔کینیڈا نے اگلی صدی تک آبادی سو ملین تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔دفتروں میں کام کرنے والی حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش سے قبل اور بعد میں تقریبا ڈیڑھ سال تک کے لیے میٹرنٹی چھٹیاں جیسی سہولیات بھی کی گئی ہیں تاکہ کام کرنے والی خواتین کوبچوں کی پیدائش کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔
جاپان میں سو سے زائد عمر والے افراد کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ جاپانی حکومت نے زمانہ حال اور مستقبل میں معاشی مسائل سے بچنے کے لیے شرح پیدائش کو ۲.۱ فیصد تک لے جانے کی ا ز حد کوشش کر رہی ہے۔
ایران میں 1979 کے بعد آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اس کی وجہ آبادی کو کنٹرول پالیسی پر سختی سے عمل در آمد ی تھی۔ایران کے وزارت صحت کے شائع کردہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر آبادی کا تناسب یہی رہا تو ایران اگلے تیس برس میں سب سے زیاد زائد العمر ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ایران میں مانع حمل ادویات اور اشیاء کی فروخت کے لیے نجی اداروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔تاہم صرف ان خواتین کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی جن کی صحت کو خطرات لاحق ہوں۔
اس کے علاوہ سب سے زیادہ گنجان آبادی والے ملک برازیل کی شرح پیدائش میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی ہے۔ستر کی دہائی میں شرح پیدائش ۴.۳ فیصد تھی جو اب ۱.۷ پر منتج ہوئی ہے۔2012 کی تحقیق کے مطابق کیتھولک ممالک میں ذرائع ابلاغ میں نشر مشتملات میں چھوٹے خاندانوں کو پیش کیا گیا جس کے بعد عوامی رجحان میں تبدیلی رونما ہوئی۔
کثیررقبے پر مشتمل روس ابادی میں اضافے کیلئے کوشاں ہے۔صدر پیوٹن کے مطابق روس میں آبادی کی شرح ایک اعشاریہ چار فیصد ہیں مگر اس آبادی کے تناسب کو 2.1 لے جانا ہے۔اس لیے روس نے پہلی بار ماں بننے والی اور دو سے زائد بچے پیدا کرنے والی خواتین کے لیے خصوصی میٹرنٹی پیکج فراہم کرنے کے لئے فنڈ قائم کیے ہیں۔اس کے علاوہ کم آمدن خاندانوں میں تین تا سات سال بچوں کو مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیمی سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں ۔زیادہ افراد پر مشتمل خاندانوں کو زائد ٹیکس سے مستثنیٰ بھی قرار دیا گیا ہے۔روس کی مردم شماری کے ماہر پروفیسر ایوگینی يكو ولیو نے معروف اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ روس کے یہ تمام معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ شرح پیدائش کو بھی بڑھائیں گے مگر بچوں کی پیدائش کے لیے زندگی کے اصولوں اور طریقوں کو بھی بدلنا ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی کثیر آبادی کے مسئلے سے دوچار ہے مگر حالیہ رپورٹ کے مطابق شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے ۔اور شرح پیدائش ۲۰۱سے ۱.۹ تک پہنچ چکا ہے۔آبادی کا بڑھنا معاشی اور معاشرتی مسائل کو جنم دیتا ہے جس کے لیے ریاست کو آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے طویل المدتی حکمت عملیوں کو تیار کرنا پڑتا ہے مگر جب یہ حکمت عملیاں طوالت اختیار کرتی ہیں تو اس سے عوام کی سوچ ایک مخصوص طرز زندگی کی عکاس ہو جاتی ہے زندگی کی تیز رفتاری اور بڑھتے ہوئے تقاضوں کے احساس نے نظریہ حیات میں جدت اختیآر کرلی ہے اور چھوٹے خاندان اسی کا شاخسانہ ہیں۔ ملک میں معاشی استحکام کا یہ محدود نظریہ آبادی کی گرتی ہوئی شرح جیسے سنگین مسئلے ،اور سنگین بحرانوں کو جنم دیتے ہیں۔اسے ریاستوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے تقاضوں کے مطابق بچوں کی پیدائش کا فیصلہ ریاست کی بجائے خاندانوں کو تفویض کیا جائے۔