مملکت خداداد پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ملک ہے۔ جس کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ اس ملک میں جہاں مسلمان اکثریت میں بستے ہیں وہیں ہندو، عیسائی، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ قلیل تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان میں عظیم خاندانی نظام موجود ہے جس کی اسلام تلقین کرتا ہے۔
بچے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنتے ہیں جبکہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک اس خاندانی نظام سے محروم ہو چکے ہیں۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ اور خواتین میں زچگی قبل از شادی کا رواج عام ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں لاوارث بچے پیدا ہوتے ہیں جن کو سڑک کنارے پھینک دیا جاتا ہے تا چائلڈ کئیر سنٹرز میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جنس مخالف کی کشش فطری عمل ہے جسے اسلام نے نکاح کے ذریعے رشتہ
ازدواج میں منسلک ہونے اور ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے مشروط کیا ہے۔ نکاح کی وجہ سے انسان جنسی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوتا اور نکاح کی مدد سے اپنی نسل آگے بڑھاتا ہے۔ نکاح کرنا سنت ہے اور رسول اللہ کے فرمان کا مفہوم یہ ہےکہ “میں کل بروز قیامت اپنی امت کے زیادہ ہونے پر فخر کروں گا”۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا لہذا آپ قیامت تک کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ نکاح اور زنا دونوں مخالف چیزیں ہیں۔ اگر جنسی تعلمات شرعی اصولوں کے تحت استوار کئے جائیں تو وہ باعث ثواب ہوگا اور اگر بغیر نکاح جنسی عمل کیا جائے تو وہ زنا کہلاتا ہے جس کے متعلق سخت وعیدیں قرآن و سنت میں موجود ہیں۔
مغربی ممالک میں زنا عام ہے۔ خواتین شادی سے قبل ہی جنسی تعلقات استوار کر کے بچے پیدا کرتی ہیں۔ حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم کی خبر نظر سے گزری کہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک دوشیزہ سے منگنی کی تھی اب وہ باپ بننے والے ہیں لہذا بچے کی پیدائش کی وجہ سے وہ اب شادی کریں گے۔
جس کا مطلب یوں ہوا کہ انہوں نے اس لڑکی کو شادی کے بغیر ہی بطور زوجہ رکھا ہوا تھا۔ بچہ بھی پیدا ہوگا اور شادی اس کے بعد کریں گے۔ اہل یورپ میں جنسی درندگی اور ہراساں کرنے کے کیس اسی لئے زیادہ ہیں کہ وہ لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں جبکہ اسلام نے عورت کو پردہ کرنے اور مرد نگاہیں نیچی رکھنے جیسے کئی سنہری اصول عطا کیے ہیں۔
کچھ نام نہاد مسلمان بھی یورپی ماحول کو دیکھ کر اپنا دین و ایمان اور اسلامی اقدار بھول چکے ہیں جس میں ایک نمایاں نام ملالہ یوسفزئی کا بھی ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے برٹس میگزین vogue کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ” مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کسی فرد کو چاہتے ہیں تو آپ کو شادی (نکاح) کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ صرف پارٹنرشپ کیوں نہیں ہو سکتی؟ “۔
ملالہ یوسفزئی بین الاقوامی امن نوبل انعام یافتہ پاکستانی ہے جس نے ماضی میں بھی اسلام اور شعائر اسلام پر ہرزہ سرائی کی تھی۔ اس کا یہ بیان زنا کو عام کرنے اور بغیر نکاح لڑکا لڑکی کا پارٹنر بن کر رہنے اور جنسی تعلقات استوا کرنے کے متعلق ہے جو کہ سراسر اسلام کے اصولوں کے منافی اور زنا کی ترغیب دینے کے مترادف ہے۔
اسی زنا کی پیدوار یورپی ممالک میں لاوارث بچوں کے روپ میں چائلڈ پروٹیکشن این جی اوز میں رہ رہی ہے۔ خاندانی نظام نہ ہونے کی بناء پر اولاد ماں باپ کو اوڈ ہاؤس چھوڑ آتی ہے جہاں سسکیاں لیتے والدین مر جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے اور باپ اس جنت کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ مسلمان اولڈ ہاؤس میں والدین کو چھوڑنے کی بجائے ان کی خدمت کر کہ جنت کماتے ہیں جبکہ اہل مغرب کی زنا کی پیداوار قبل از شادی بچے پیدا کرنے میں مصروف ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اسلام کو سیکھا جائے پھر شعائر اسلام کے بارے بات کی جائے۔ ملالہ یوسفزئی سمیت دوسرے نام نہاد مفکرین جو آئے روز اسلام پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ان کو چاہئیے کہ اپنا قبلہ درست کریں۔ جو اللہ کے قوانین کی مخالفت کرے تو اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔